۲۵مئی ۱۹۰۸ئ
(قبل نماز عصر)
حضرت اقدس علیہ السلام کی آخری تقریر
مولوی ابراہم صاحب سیالکوٹی نے حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ اپنے کسی خاص قاصد کے ایک خط بھیجا جس میں بعض مسائل مختلفہ پر زبانی گفتگو کرنے کی اجازت چاہی اور وعدہ کیا کہ میں بہت نرمی اور پاس ادب سے گفتگو کروں گا۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے قبل عصر حضرت مولٰنا مولوی سید محمد احسن صاحب سے ان کے متعلق دریافت کیا کہ وہ اخلاق کے کیسے ہیں ۔مغلوب الغضب اورفوراً جوش میں آجانے والے یا بھڑک اٹھنے والی طبیعت کے تو نہیں ہیں ؟ اس کے جواب میں بعض اصحاب نے عرض کیا کہ حضور ایسے تونہیں۔ ان کی طبیعت میں نرمی پائی جاتی ہے۔البتہ اگر بعض عوام کا ہجوم ان کے ہمراہ ہوگا تواندیشہ ہے۔حضرت اقدس علیہ السلام خود چونکہ پیغام صلح لکھنے میں مصروف تھے اور فرصت نہ تھی ۔ اسلئے حضرت اقدس علیہ السلام مولٰنا مولوی سید محمد احسن صاحب سے فرمایا کہ آپ انکو خط کا جواب لکھ دیں ۔ اصل خط ان کا ہم بھیج دیں گے اوربیشک نرمی سے اورآہستگی سے ان سے ان مسائل میں گفتگو کریں ۔البتہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے ہمراہ سوائے دوچارر معزز اورشریف آدمیوں
کے اورزیادہ ہجوم نہ ہواورآپ بھی علیحدگی میں بیٹھ کر گفتگو کریں۔ اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔ اسی دوران میں کسی دوست نے ان کا یہ عقیدہ پیش کردیا کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کے سولی پر لٹکائے جانے کے ہی قائل نہیں اورکہ وہ اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں آیت کریم اذکففت بنیٓ اسرآئیل عنک (المائدۃ :۱۱۱)پیش کرتے ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کا صلیب پر چڑھایا جانا
اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا :۔
خلاف تواتر امور محسوسہ مشہودہ کی پروانہ کرکے ایسی ایک راہ اختیار کرنا ۔ جسکی کوئی بھی دلیل نہیں ۔یہ عقل اورایمان کے سراسر خلاف ہے ۔میں کوئی نئی بات پیش نہیں کرتا اور نہ ہی میں کسی ایسی بے دلیل بات کے منوانے کی کوشش کرتا ہوں جس کا قوی ثبوت اور بین شہادت میرے ہاتھ میںنہیں ۔ میرے ساتھ میری شہادت کے واسطے اس وقت لاکھوں انسان موجود ہیں ۔ قوموں کی قومیں اپنی متواتر اورمتفقہ شہادت پیش