آپ نے کیا اصلا ح کی ؟
پھر اس شخص نے پوچھا کہ آپ نے کیا اصلا ح فرمائی ؟
فرمایا :۔
دیکھو چارلاکھ سے زیادہ آدمیوں نے میرے ہاتھ پر فسق وفجور اوردیگرگناہوں اورفاسد عقیدوں سے توبہ کی ۔ انسان جب فسق وفجور میں پڑتا ہے توکافر کا حکم رکھتا ہے ۔کوئی دن نہیں گذرتا جب کئی اشخاص توبہ کرنے کے لئے نہیں آتے ۔ ہر امر میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ایک بڑی بات ہے ۔ مسلمانی صرف یہی نہیں جیسے تم سمجھتے ہو ۔ نیکی کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔ریاکاری کے ساتھ عمل باطل ہوجاتا ہے ۔یہ زمانہ ایسا زمانہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ عمل کرنا مشکل ہے ۔دنیا کی طرف لوگوں کی توجہ ہے ۔ہر صدی کے سرپر اس قسم کی غلطیوں کو مٹانے اورتوجہ الیٰ اللہ دلانے کے لئے مجدد کا وعدہ دیا گیا ہے ۔اگر ہر صدی پر مجدد
کی ضرورت نہ تھی بلکہ بقول آپ کے قرآن کریم اور علماء کافی تھے تو پھر نبی ﷺ پر اعتراض آتا ہے حج کرنے والے حج کو جاتے ہیں۔ زکوٰۃ بھی دیتے ہیں ۔ روزے بھی رکھتے ہیں ۔پھر بھی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سوبرس کے بعد مجدد آئے گا ۔ مخالفین بھی اس بات کے قائل ہیں۔ پس اگر میرے وقت میں ضرورت نہ تھی توپیشگوئی باطل جاتی ہے ۔ظاہری حالت پر ہی نہیں جانا چاہئیے ۔غیب کا حال تو اللہ تعالیٰ کے سواکسی کو معلوم نہیں ۔ویل للمصلین الذین ھم عن صلاتھم ساھون (الماعون ۵‘۶)
یعنی لعنت ہے ان نمازیوں پر جو اپنی صلوٰۃ کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔
پس فلاح وہی پاتا ہے اوروہی سچا مومن کہلاتا ہے جو نیکی کو اس کے لوازم کے ساتھ کرتا ہے ۔یہ بات اس زمانہ میں بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔پس ان اندرونی بیرونی
کمزوریوں کو دورکرنے کے لئے میں اپنے وقت پر آیا ۔اگر میں خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں تویہ سلسلہ تباہ ہوجاوے گا۔ اگر میں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں تو یادرکھو کہ پھر مخالف ناکام رہیں گے ۔۱؎
۱؎ بدر جلد ۷نمبر ۲۳صفحہ ۷مورخہ ۱۰جون ۱۹۰۸ئ