۲۵مئی ۱۹۰۸ئ؁ بمقام لاہور۔بوقت ظہر(وفات سے قریباً ۲۰ گھنٹے پہلے کی تقریر ) نبوت کی حقیقت ایک شخص سرحد ی آیا ۔ بہت شوخی سے کلام کرنے لگا۔ اس پر فرمایا :۔ میں نے اپنی طرف سے کوئی اپنا کلمہ نہیں بنایا ۔ یہ نماز علیٰحدہ بنائی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کو دین وایمان سمجھتا ہوں۔ یہ نبو ت کا لفظ جو اختیار کیا گیا ہے صرف خداتعالیٰ کی طرف سے ہے ۔جس شخص پر پیشگوئی کے طورپر خداتعالیٰ کی طرف سے کسی بات کااظہار بکثرت ہوا سے نبی کہا جاتا ہے ۔خداکا وجود خداتعالیٰ کے نشانوں کے ساتھ پہچانا جاتا ہے ۔ اسی لئے اولیاء اللہ بھیجے جاتے ہیں مثنوی میں لکھا ہے ؎ آں نبی وقت باشد اے مرید محی الدین ابن عربی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے ۔حضرت مجد د نے بھی یہی عقیدہ ظاہر کیا ہے کہ پس کیا سب کوکافر کہو گے ؟یادرکھو کہ سلسلہ نبوت قیامت تک قائم رہے گا۔ مجدد کی ضرورت اس پر اس سرحدی نے سوال کیا کہ دین میں کیا نقص رہ گیا تھا جس کی تکمیل کے لئے آپ تشریف لائے ؟ فرمایا :۔ احکام میں کوئی نقص نہیں۔ نماز ‘قبلہ ‘زکوٰۃ ‘کلمہ وہی ہے ۔کچھ مدت کے بعد ان احکام کی بجاآوری میں سستی پڑجاتی ہے ۔بہت سے لوگ توحید سے غافل ہوجاتے ہیں۔ تووہ اپنی طرف سے ایک بندے کو مبعوث کرتا ہے جو لوگوں کوازسر نوشریعت پر قائم کرتا ہے ۔سوبرس تک سستی واقع ہوجاتی ہے ۔ایک لاکھ کے قریب تومسلمان مرتد ہوچکا ہے ۔ابھی آپ کے نزدیک کسی کی ضرورت نہیں؟لوگ قرآن چھوڑتے جاتے ہیں سنت نبوی سے کچھ غرض نہیں ۔ اپنی رسوم کو اپنا دین قرار دے لیا ہے اور ابھی آپ کے نزدیک کسی کی ضرورت نہیں۔ اس پرا س شخص نے کہا کہ اس وقت توسب کافر ہوں گے کوئی تیس چالیس مومن رہ جائیں گے ۔ فرمایا :ـ۔ کیا مہدی کے ساتھ جو مل کر لڑائی کریں گے وہ سب کافر ہی ہوں گے ۔