امام الزمان مسیح موعود مہدی سعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دردولت پر آئیں اوربیان کیا کہ ہم مہاراج کے درشن کے واسطے آئی ہیں حضور علیہ السلا م کی خدمت میں اطلاع کی گئی ۔ چنانچہ آ پ نے نہایت لطف اورمہربانی سے انکوراجازت دی اوروہ گھر میں جاکر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
حضرت اقدس چونکہ ان دنوں مضمون رسالہ پیغام صلح کے لکھنے میں مصروف تھے تھوڑی دیر کے بعد
آپ نے فرمایاکہ
اب درشن ہوگئے اب تم جائو
مگر انہوں نے عرض کی کہ ہم کوآپ کوئی وعظ سناویں ہم اسی واسطے حاضر خدمت ہوئی ہیں ۔چنانچہ آپ نے ان کے اصرار اوراخلاص کی وجہ سے ان کو یوں مخاطب کیا (جوکہ آپ نے ۲۴مئی ۱۹۰۸ئ کو قبل عصر بیان فرمایا )
فرمایا :۔
اصل بات یہ ہے کہ آ پ لوگوں میں اگر دو ایک باتیں نہ ہوں تو آپ لوگ آریہ وغیرہ لوگوں سے سودرجہ بہتر اوراچھے ہو۔ ان میں سے پہلی بات تویہی ہے کہ خداکو جوکہ ہماراتمہارا پیدا کنندہ اورپروردگار حقیقی ہے اس کو واحدلاشریک جان کر اس کی عبادت کرو۔ اس کی عباد ت میں کسی دوسرے دیوی دیوتا ‘پتھر یا پہاڑ ‘سانپ یاکسی دوسرے ہیبت ناک درندے ‘گنگامائی یا جمنایا کوئی درخت ہویانباتات غرض کوئی بھی بت اس کے ساتھ شریک نہ کیا جاوے اور اسے ایک اکیلا خدا کرکے پوجا کرو۔ یہ جو تم لوگوں نے تینتیس کروڑ دیوتابنارکھے ہیں ان کی کیا ضرورت تھی اور یہ کیوں بنائے گئے ہیں ؟اتنے خداتمام دنیا میں اورتوکسی کے بھی نہیں ہیں۔
(حضرت اقدس کا اتنا بیان سنکر ان مستورات نے طلب حق کی غرض سے عرض کی کہ یہ بات آ پ ہمیں سمجھاویں )
اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ :۔
دیکھو گدادوقسم کے ہوتے ہیں ۔ایک تو نرگدا‘دوسرے خرگدا۔ نرگدا کا تو قاعدہ ہوتاہے کہ ایک آواز کی اوراگلے دروازے پر چل دیئے ۔کسی نے کچھ دے دیا تو ٹھیک ورنہ خیر بلکہ ایسے لوگوں کو بعض لوگ پیچھے سے آآکر بھی خیرات دیتے ہیں ۔ ان کاکام صداکرنا اور آگے بڑھنا ہوتا ہے مگر برخلاف ان کے خرگدا دھرنا مارکر بیٹھ جاتے ہیں اورایک ہی دروازے پر بیٹھے رہتے ہیں جب تک ان کا سوال پورانہ کیا جاوے اورآخر ایسے گداکو ملتا ہے اورضرورملتا ہے۔یہی حال خدا سے مانگنے والوں کا ہے ۔خداسے بھی وہی پاتے ہیںجو خرگدابن کر
خداہی کے دروازے کے ہورہتے ہیں اورپکے ہوکر استقلال سے خداتعالیٰ کے حضور سے