اس پر اتنا اعتقاد نہیں رہتا جب وہ ظاہر ہوکر سامنے آجاوے ۔ مثلاً ان ہندوئوں کے دیوی دیوتا جتنے بھی ہیں اور ان پر ان کو کامل اعتقاد ہے اگر وہ ان کے روبر وآجاویں توان لوگوں کے دلوں میں ہرگز انکی اتنی وقعت نہ رہے ۔نہ نبیوں ہی کا کام ہے کہ وہ اپنی شکل بھی دکھادیتے ہیں اوراپنی عظمت بھی دلوں میں قائم کرجاتے ہیں۔مسیح جن کو آجکل لوگ خدامانتے ہیں اگر وہ یہاں آجاویں اورلوگوں کے حلقے میں بیٹھیں توممکن نہیں کہ ان کی پرانی خدائی کی عظمت بھی لوگوں کے دلوں میں رہ سکے چہ جائیکہ وہ کچھ اورخدائی کا دبدبہ بٹھاسکیں کیونکہ لوگوں نے جس خیال سے ان کو خداتسلیم کیا ہواہے ظاہر ہوجانے پر ان میں وہ باتیں نہ پاکر ضرور ہے کہ انکار کردیں۔ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جب کسی خاص شخص کے متعلق کوئی اعتقاد پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کی ایک خیالی تصویر بھی اس کے ذہن میں آجاتی ہے ۔جب تک وہ اس کی نظروں سے غائب تھی تب تک توخیر مگر جب وہ شخص یا چیز اس کے سامنے آجاتی ہے اورانسان اس کو اپنے خیالی بت یا تصویر کے خلاف پاتا ہے تواس کے دل سے اس کی عظمت اٹھ جاتی ہے یا کم زکم وہ عزت نہیں رہتی۔چنانچہ یہی حال ان لوگوں کے مصنوعی خداکا ہے ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ اصل میں وہ شخص ان کے دل کی خیالی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا۔جو کچھ انہوں نے سمجھاہوتا ہے وہ نہیں بلکہ کچھ اورہی پاتے ہیں۔ توبداعتقاد اوربدظن ہوجاتے ہیں ۔ اوراصل میں یہ وہیں ہوتا ہے ۔ جہاں ایسے امور میں اول غلو سے کام لیا جاوے مگر انبیاء ایسی ذات اوروجود ہوتے ہیں کہ وہ بنا وجود دکھا کر اپنی عظمت قائم کرتے ہیں ۔۱؎ ۲۴مئی ۱۹۰۸ئ؁ (قبل عصر) ہندومستورات کو شرک ترک کرنے کی تلقین ۲۳مئی ۱۹۰۸ئ؁ کو بعد نماز عصر چند ہندومستورات حضرت ۱؎ الحکم جلد ۱۲نمبر ۳۷ صفحہ ۵۔۶مورخہ ۶جون ۱۹۰۸ئ؁ نیز بدر جلد ۷نمبر ۲۴صفحہ ۹۔۱۰مورخہ ۱۸جون ۱۹۰۸ئ؁ ۲؎ ہندومستورات حضورعلیہ السلام کی زیارت کے لئے ۲۳مئی کو بعد نماز عصر آئیں اورحضور علیہ السلام نے ۲۴مئی کو قبل نماز عصران سے اپنی گفتگوکا ذکر فرمایا ۔اس لئے ان ملفوظات پر ۲۴مئی کی تاریخ درج ہے (خاکسار مرتب )