کردیگا ۔میں اس مہدی کے متعلق اپنی ذاتی رائے یہ رکھتا ہوں کہ وہ اہل قلم میں سے ہوگا اور اسی زبردست آلہ کے ذریعہ سے اقوام عالم کے دلوں سے میں تخم یگانگت بوسکے گا۔‘‘۱؎
غرض اس امر کا احساس توہر ملک وملت کے لوگوں میں پایاجاتا ہے مگر چاہئیے تھا کہ ضرورت کے مطابق کوئی پیدا بھی ہوتا اوروہ اسلام کا نوراور برکات دکھا کر
زندہ معجزات سے اسلام کے فیوض اورزندگی کا ثبوت دیتا نہ یہ کہ اس زمانہ پر پہنچ کر خاموشی اختیار کی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ اب اسلام زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے اورکوئی ولی یا بزرگ موجود نہیں جو نشانات دکھا کر اسلام کی زندگی کا ثبوت دے ۔ماناکہ اخلاق فاضلہ بھی کسی مذہب کی صداقت کی کسی قدر دلیل ہوسکتے ہیںاوران کا بھی کسی قدر اثر بیرونی لوگوں پر ہوتا ہے ۔مگر صرف اخلاق فاضلہ ہی حقیقی اورزندہ ایمان نہیں دے سکتے بلکہ وہ درجہ ایمان جو انسان کوخداتعالیٰ پر کامل ایمان عطاکرتا ہے اورگناہ سوز زندگی کا آغا ز ہوتا ہے ۔وہ صرف خداتعالیٰ کے اپنے تازہ نشانوں سے ہی پیدا ہوتا ہے جو وہ اپنے ماموروں کی معرفت دنیا میں ظاہر کرتا ہے ۔
ہندوئوں اورمسلمانوں میں خوشگوار تعلقات کی خواہش
فرمایا :۔
موجود ہ صورت میں تو بہ نسبت مسلمانوں کے ہمیں ہندوئوں سے زیادہ امید نظر آتی ہے ۔ کیونکہ وہ تعلیم کی ترقی کی وجہ سے اورکچھ تجربہ کی وجہ سے بہت کچھ سمجھ گئے ہیں۔ ہماراتو خود کبھی بھی یہ منشانہیں کہ ان لوگوں کے مسلمہ بزرگوں کو گالیاں دی جائیں یا ان کی عزت نہ کی جاوے اور اسی طرح ہم ان سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اتنا ہی ہی کریں خواہ ایمان نہ لاویں مگر ان کو برابھی نہ کہیں اورکہدیں ۔ کہ سچا مانتے ہیں ۔ یہ جو موجودہ زمانہ میں پھوٹ اورنفاق کا سلسلہ جاری ہے اس کو بندکردیں اوربالکل ممانعت کردیں کہ باہم
ایک دوسرے کے مذہب کی مخالفت میں ہتک امیز کلمات اورکتابیں بالکل بند کردی جاویں اور چھاپی ہی نہ جاویں اور ایک ایسی ہوا چل جاوے کہ آپس میں محبت ہو اوراتفاق بڑھے ۔جس طر حسے ایک ہوا پہلے چل گئی تھی کہ بچہ بچہ بھی اسلام سے متنفر تھا۔ اس طرح کی ایک ایسی ہواچل جاوے کہ باہمی اخوت اور اتحاد بڑھے اور نفاق اوربغض وتعصب دلوں سے نکل جاوے ۔
عقیدت اوراعتقاد
فرمایا :۔ قاعدہ کی بات ہے انسان کو ایک مخفی امر پر جتنا اعتقاد ہوتا
۱؎ پیسہ اخبار ۲۲مئی ۱۹۰۸ئ