میں اس نے صاف اقرارکیا کہ یہ ڈارون کا قول ہے ۔اگر چہ اس قابل نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جاوے بلکہ انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے۔غرضکہ اس پر بہت بڑا اثر ہواہے اوروہ حضو ر کی ملاقات کے بعد ایک نئے خیالات کا انسان بن گیا ہے اور ان خیالات کو جرات سے بیان کرتا ہے۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اصل تقریر کی طرف رجوع کیا اورفرمایاکہ :۔ ابھی ایسی لمبے سفروں کی چنداں ضرورت نہیں کہ ممالک یورپ اورامریکہ میں جاویں بلکہ ابھی تو خود ہندوستان ہی اس بات کا ازبس محتاج ہے۔ تو کار زمیں را نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی ان ممالک میں جانا ایسے لوگوں کاکام ہے جو ان کی زبان سے بخوبی واقف ہوں اوران کے طرز بیان اور خیالات سے خوب آگاہ ‘سفر کے شدائد اٹھاسکیں اور ان کی صحت کی حالت بھی بہت اچھی ہو۔ بصورت موجودہ یہ کام بھی بہت بڑا بھاری ہے کہ چندایسے آدمی ہوں کہ وہ اسی ملک میں اچھی طرح سے گائوں گائوں پھر کر لوگو ں کو ہماری بعثت کی اطلاع دے دیں۔ اسلام کی زندگی کا ثبوت دینے کیلئے مامور کی ضرورت کسی لیکچر کے متعلق ذکرتھا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں بیان کیا کہ اسلام بذریعہ اخلاق کے پھیلا ہے نہ تلوار سے ۔ جنہوں نے اپنے اخلاق کریمہ کی وجہ سے دنیا میں اسلام کو پھیلایا ہے ‘‘وغیر ہ۔مگر موجودہ زمانہ کے متعلق بجز خاموشی کچھ پیش نہیں کرسکتے ۔ فرمایا:۔ تلک امۃ قد خلت لھا ما کسبت ولکم ماکستبتم (البقرۃ :۱۳۵)ان اولیاء اوربزرگوں کو اس موجودہ زمانہ سے تعلق ہی کیا ؟وہ اپنے وقت پر آئے اوراپنا کام کرکے چلے گئے ۔اب زمانہ موجودہ میں بھی کسی مجددیا خادم دین کی ضرورت ہے یا کہ بخیال ان کے یہ زمانہ وجالوں ہی کے آنے کا زمانہ ہے ؟ضرورت کا احساس تودلوں میں موجود ہے ۔حالات موجود پکار کر کہہ رہے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت ہے ۔چنانچہ آج ہی پیسہ اخبار میںایک انگریز کا مضمون تھا ۔ اس نے کسی جگہ پر اپنے لیکچر میں بیان کیا کہ زمانہ پکارپکار کر کہہ رہا ہے کہ ہندو‘مسلمان ‘عیسائیوں اوریہودیوں کوا تفاق کی ضرورت ہے چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ مسلمان یہودی اورنصرانی سب کے سب بلا امتیاز انسانی گروہ میں اتحاد واتفاق دیکھنے کے مشتاق ہیں اور مہدی موعود کے آنے کا انتظار دیکھ رہے ہیں جو کہ دیر یا سویر عالم وجود میں آکر تمام انسانوں میں یگانگت کا رشتہ قائم