۲۳ مئی ۱۹۰۸ئ
بمقام لاہور۔ قبل نماز ظہر
تبلیغ سلسلہ کیلئے قناعت شعار آدمیوں کی ضرورت
ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کرکے دکھانے والے ہوں ۔ علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں ۔ایسے ہوں کہ نخوت اورتکبر سے بکلی پاک ہوں اور ہماری صحبت میںرہ کر یا کم ازکم ہماری کتابوںکا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو ۔البتہ شیخ غلام احمد اس کے واسطے اچھا آدمی معلوم ہواہے ۔اس کے کلام میں بھی تاثیر ہے اور اخلاص ومحبت سے اس نے اپنے اوپر اس شدت گرمی میں اتنا وسیع دورہ کرنے کا بوجھ اٹھایا ہے ۔کچھ خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ لوگ اس کاکلام سننے کے واسطے جمع بھی ہوہی جاتے ہین ایک جگہ اس کو پتھر بھی پڑے مگر خداتعالی ٰکی قدرت سے وہ پتھر بجائے ان کے کسی دوسرے کولگااوروہ زخمی ہوا۔
تبلیغ سلسلہ کے واسطے ایسے آدمیوں کے دوروں کی ضرورت ہے مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کردیں۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہؓ بھی اشاعت اسلام کے واسطے دوردراز ممالک میں جایا کرتے تھے ۔ یہ جوچین کے ملک میں کئی کروڑ مسلمان ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی صحابہ ؓ میں سے کوئی شخص پہنچا ہوگا۔
اگر اسی طرح بیس یا تیس آدمی متفرق مقامات میں چلے جاویں توبہت جلدی تبلیغ ہوسکتی ہے مگر جب تک ایسے آدمی ہمارے منشا کے مطابق اورقناعت شعارنہ ہوں ۔ تب تک ہم ان کو پورے پورے اختیارات بھی نہیں دے سکتے ۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ ؓ ایسے قانع اورجفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتو ں پر ہی گذر کرلیتے تھے ۔
تمام ہندوستان ہمارے دعاوی سے ایسا بے خبر پڑا ہے کہ گویا کسی کو خبر ہی نہیں ۔میرے نزدیک یہ مدرسہ یاکالج وغیر ہ کا بنانا اول سلسلہ کی مضبوطی پر موقوف ہے ۔اول چاہئیے کہ سلسلہ میں ایسے لوگ ہوں جو سلسلہ کی ضروریات کی مددکرنیوالے ہوں ۔جب سلسلہ کی ضروریات مثل لنگر وغیرہ ہی پوری نہیں ہوتیں تواور کاموں میں بہت توجہ کرنا بھی بے فائدہ ہے ۔اگر کچھ ایسے لائق اور قابل آدمی سلسلہ کی خدمات کے واسطے نکل جاویں جو فقط لوگوں کو اس سلسلہ کی خبر ہی پہنچادیں تو بھی بہت بڑے فائدہ کی توقع کی جاسکتی ہے ۔