کرتا ہے اوربیج بوتا اورپانی دینے وغیرہ کی محنت برداشت کرتا ہے ۔ کیا اسے کسی کفارہ کی ضرورت ہے ؟نہیں بلکہ اسے محنت اورعمل کی ضرورت ہے ۔اس بات کو ہم مانتے ہی نہیں کہ بجز کفارہ کے کوئی راہ نجات ہی نہیں ۔ بلکہ کفارہ توانسانی ترقیات کی راہ میں ایک روک اورپتھر ہے ۔
سوال :۔پاکیزگی سے کیا مراد ہے ؟
جواب :۔پاکیزگی سے یہ مراد ہے کہ انسان کو جو اس کے جذبات نفسانیہ خداتعالیٰ سے روگرداں کرکے اپنی خواہشات میں محوکرنا چاہتے ہیں ان کا مغلوب نہ ہو۔ اورکوشش کرے کہ خداتعالیٰ کی مرضی کے موافق اس کی رفتار ہو ۔ یہانتک کہ اس کا کوئی قول فعل خداتعالیٰ کی رضامندی کے بغیر سرزدہی نہ ہو ۔ خداتعالیٰ قدوس اورپاک ہے وہی اپنی صفات کے مطابق ہی انسان کو بھی چلانا چاہتا ہے ۔وہ رحیم ہے انسان سے بھی رحم چاہتا ہے ۔وہ کریم ہے انسان سے بھی کرم چاہتا ہے ۔خداتعالیٰ کی صفات خداتعالیٰ کے قانون قدرت میں ظاہر ہیں جسمانی طور سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا مدت ہائے دراز سے چلی آتی ہے ۔ان کو اناج ‘پانی ‘لباس ‘روشنی وغیرہ تمام حوائج ضروریہ اورلوازم انسانیہ ہمیشہ سے بہم پہنچاتا چلاآتا ہے اورہمیشہ ہی اس کے رحم اورکرم کی صفات اوراسماء حسنہ کے تقاضے ساتھ ساتھ مخلوق کی دستگیری کرتے چلے آئے ہیں۔ پس غرض یہ ہے کہ خداتعالیٰ انسا ن کو اپنی صفات کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے ۔
اس کے بعد پروفیسر اور لیڈی نے حضرت اقدس علیہ السلام کا شکریہ اداکیا اور کہا کہ ہم مشکور ہیں کہ آپ نے گفتگو کی عزت بخشی اورہماری معلومات میں ایک مفید اضافہ فرمایا اور ہمارا وقت بہت اچھی طرح سے گذرا۔!؎
۱۹ مئی ۱۹۰۸ئ
عبدالحکیم پٹیالوی کا ذکر
عبدالحکیم کی کتاب کا ذکر تھا کہ بہت سے اعتراض کئے ہیں ۔فرمایا :۔
ہم نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے ۔ بحثیں ہوچکیں ۔ کتابیں مفصل لکھی جاچکی ہیں۔ اب بحث میں پڑنا فضولیوں میں داخل ہے۔
!ؔ؎ الحکم جلد ۱۲نمبر ۳۵صفحہ ۴تا ۷مورخہ ۳۰مئی ۱۹۰۸ئ