حاصل کرسکتی ہے ۔نہ کمالات میں انسانی روح کی برابر ی کرسکتی ہے ۔ کچھ تشابہ ہوتو اس باریک بحث میں ہم پڑنا مناسب نہیں سمجھتے ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض خاص خاص صفات میں یہ روحیں انسانی روح سے مشابہت رکھتی ہوں ۔مگر جس طرح انسا ن میں اوران میں ظاہری اختلاف اورفرق ہے اسی طرح اختلاف روحانی بھی پایا جاتا ہے ۔بلکہ یہانتک بھی مانا گیا ہے کہ بعض نباتات میں بھی ایک قسم کا شعورپایا جاتا ہے ۔ایک بانس کا درخت گھر کی چھت کے نیچے لگایا جاوے مگر جب بڑھتے بڑھتے وہ چھت سے قریب ایک بالشت کے رہ جاویگا تو وہ اپنا رخ بدل لے گا اوردوسری طرف کے بڑھنا شور کردے گا ۔ ایک اور قسم کی نباتی بوٹی ہے جس کو پنجاب میں چھوئی موئی کہتے ہیں۔ وہ انسان کو ہاتھ لگتے ہی سمٹ کر اکھٹی ہو جاتی ہے ۔یہ باتیں پرانی اچھی اچھی طبعیات کی کتابوں میں لکھی ہیں اور نیز تجربہ سے بھی ثابت ہیںمگر ان کے پیچھے بہت زیادہ نہ پڑنا چاہئیے ۔ وہ شعر کیا ہی موزون ہے کہ ؎
تو کار زمیں رانکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی
ان کے دقیق دردقیق مباحثات میں پڑکر ان کی تفصیلات کی جستجو میں وقت ضائع کرنا ٹھیک نہیں۔
سوال :۔ میں ایک روزگرجائیں گیا تھا وہاں پادری صاحب نے لیکچر میں بیان کیا کہ ’’انسان ایک بالکل ذلیل ہستی ہے اورگندہ کیڑا ہے ۔یہ روزبروز نیچے ہی نیچے گرتا ہے اورترقی کے قابل ہی نہیں۔ اسی واسطے اس کی نجات اورگناہ سے بچانے کے واسطے خدانے اپنے اکلوتے بیٹے کو کفارہ کیا ‘‘مگر میں جانتا ہوں کہ انسان نیکی میں ترقی کرسکتا ہے ۔ میرا یہ بچہ اس وقت اگر بے علمی کی وجہ سے کوئی حرکت ناجائز کرے توپھر ایک عرصہ بعد جب اسے عقل آوے گی اوراس کا علم ترقی کرے گا تویہ خود بخود سمجھ لے گا کہ یہ کام براہے اس سے پرہیز کرکے اچھے کام کرے گا۔ حضور کا اس میں کیا اعتقاد ہے ؟
جواب :۔ فرمایا :۔
انسان نیک ہے ۔نیکی کرسکتا ہے اورترقی کرنے کے قویٰ اس کو دیئے گئے ہیں ۔نیکی میں ترقی کرکے انسان نجات پاسکتا ہے ۔
سوال :۔ یہ لوگ کہتے ہیںکہ انسان لاکھ نیکی کرے مگر وہ برباد ہے بجز اس کے کہ کفارہ مسیح پرایمان لاوے ۔ آپ اس میں کیا فرماتے ہیں۔
جواب :۔انسان کو عمل اورکوشش کی ضرورت ہے ۔کفارہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ جیسا جسمانی نظام ہے ولیا ہی روحانی نظام ہے ۔ نظام جسمانی میں ایک کاشتکارکی مثال ہی کو لے لو۔ وہ کس محنت سے قبلہ رانی