کوئی ایسا بند رپیش کیا جاوے جو آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے انسانی حالت میں آجاوے ۔ ہم ایسے بے دلیل قصے کہانیوں پر کیونکر ایمان لاسکتے ہیں۔ البتہ یہ تو ہم بہت سے گذرے ہیں مگر موجود ہ حالات کے ماتحت جو ہم روزمشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان سے انسان پیدا ہوتا ہے ۔بندر سے انسان یا انسان سے بندر کبھی کسی نے پیدا ہوتانہیں دیکھا ہوگا۔ یہ تو ایک ناولوں کا قصہ ہے۔ ہمیشہ نوع سے نوع ہی پیدا ہوتی ہے ۔ خداتعالیٰ نے اپنا قانون ہماری آنکھو ں کے سامنے رکھا ہوا ہے کہ گدھے سے گدھا گھوڑے سے گھوڑا اوربندرسے بندرپیدا ہوتا ہے ۔اب اس کے خلاف جو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ بند ر سے انسان بھی پیدا ہوتا ہے اس کو اپنے دعویٰ کی دلیل بھی پیش کرنی چاہئیے۔ یہ کہہ دنیا کہ شاید ایسا ہوگیا ہو۔شاید کے کیا معنے ؟ ہمارے ساتھ تواللہ تعالیٰ نے ایک مشاہدہ دلیل کے طورسے رکھا ہوا ہے کہ اس کے خلاف کہنے والوں کو کوئی بین دلیل پیش کرنی چاہئیے ورنہ ظنی باتوں اور صرف دعوئوں سے کوئی امر حجت نہیں ہوسکتا۔ روح ایک مخلوق چیز ہے ۔ اسی عنصری مادے سے خداتعالیٰ اسے بھی پیدا کرتا ہے (جیسا کہ مفصل طور سے اس امر کو ہم نے تازہ تصنیف کتاب چشمہ معرفت میں بیان کیا ہے )روح انسانی باریک اورمخفی طورسے نطفہ انسانی میں ہی موجود ہوتی ہے اور وہ بھی نطفہ کے ساتھ ساتھ ہی آہستگی سے نشوونما کرتی اورترقی پاتی پاتی چوتھے مہینے کے انجام اور پانچویں مہنے کی ابتداء میں ایک بین تغیر اور نشوونما پاکر ظہور پذیر ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنی پاک کلام میں فرماتا ہے کہ ثم انشاناہ خلقا اخر۔(المومنون :۱۵) یہ دوست نہیں جیسا کہ آریہ بتاتے ہین کہ روح بھی خداکی طرح ازلی ابدی ہے۔ اس اعتقاد پر اتنے شبہات پڑتے ہیں کہ پھر خداخداہی نہیں رہتا ۔روح ایک لطف جو ہر ہوتا ہے جو مخفی طورسے انسان کی پیدائش کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتا اور نشوونما پاتا ہے ۔مثال کے طورپر ایک گولر کے پھل کرلو ۔ جب وہ کچا ہوگا تواس میں ایک قسم کے نامکمل حالت میں زندہ جانور پائے جاویں گے مگر جو نہی کہ وہ پک کرتیار ہوگا اس میں سے جانور چلتے پھر تے نظر آویں گے اوریہانتک کہ پر لگ کراڑنے بھی لگ جاویں گے ۔اس کے سوااوربھی کئی درختوں کے پھل ہیں جن میں اس قسم کے مشاہدات پائے جاتے ہیں ۔ غرض ہمارے پاس توہمارے دعویٰ کا ثبوت ہے ۔ ثابتہ سچائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اصل میںان پھلوں میں ایک قسم کا مادہ اندر ہی اندر موجود ہوتا ہے جو پھل کے نشوونما کے ساتھ ساتھ نشوونما کرتا اورترقی پاتا ہے۔