ہے کہ چرند پرند اس سے بھی زیادہ خوشحال ہوں یہ دنیا ایک عالم امتحان ہے ۔ اس کے حل کرنے کے واسطے دوسرا عالم ہے ۔ اس دینا میں جو تکالیف رکھی ہیں اس کا وعدہ ہے کہ آئندہ عالم میں خوشی دیگا۔ اگر اب بھی کوئی کہے کہ کیوں ایسا کیا اور ایسا نہ کیا۔ اس کا یہ جواب ہے کہ وہ تحکم اور مالکیت بھی تو رکھتا ہے۔ اس نے جیسا چاہا کیا کسی کو اس کے اس کام پر اعتراض کی گنجائش اور حق نہیں ۔
دوسری بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ چونکہ تکالیف انسانی ۔ تکالیف حیوانی سے بڑھی ہوئی ہیں ۔ (اسی واسطے انسانی اجربھی حیوانی اجر سے بڑھا ہوا ہوگا)تکالیف انسانی دو قسم کی ہیں ۔ ایک تکالیف شرعیہ دوسری تکالیف قضا و قدر ۔ تکالیف قضا و قدر میں انسان و حیوان مشترک اور قریباً برابر ہیں ۔ اگر انسان کے ہاتھ سے حیوان مرتے ہیں تو حیوانوں کے ہاتھ سے آخر انسان بھی تو مرتے ہیں ۔ اسی طرح اور اور تکالیف میں بھی ان کا آپس میں ایک قسم کا اشتراک پایاجاتا ہے ۔
باقی تکالیف شرعیہ میں انسان کے ساتھ حیوانات کا کوائی اشتراک نہیں ہے ۔ احکام شرعیہ بھی ایک قسم کی چھری ہے جو اناسنی گردن پر چلتی ہے ۔ مگر حوان اس سے بری الزمہ ہیں ۔ امور شرعیہ بھی ایک موت ہیں جو انسان کو اپنے اوپر وارد کرنی پڑتی ہے ۔پس اس طرح سے ان باتوں کو یکجائی طور سے دیکھنے سے صاف معلوم ہوگا کہ تکالیف انسانی تکالیف حوانی سے بہت بڑھی ہوئی گہے
تیسری بات جو قابل یاد ہے ۔یہ ہے کہ انسانی حواس میں بہت تیزی ہے ۔ انسان میں قوت احساس زیادہ پائی جاتی ہے ۔ حیوانات یا نباتات اس کے مقابل میں بہت کم احساس رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حیوانات کو اتنی عقل بھی نہیں دی گئی ۔ عقل سے ہی شعور پیدا ہوتا ہے ۔ حیوانات میں چونکہ عقل و شعور بہت کم درجہ کا ہوتا ہے ۔ اسی واسطے ایک قسم کی مستی کی حالت میں رہتے ہیں ۔ احساس کا مسئلہ زیادہ تر انسان میں پایا جاتاہے ۔ حیوانات میں یہ قویٰ ایسے کم درجہ کے ہیں کہ گویا نہ ہونے کے برابر ہیں ۔۔پس حیوانات تکالیف کا بہت کم احساس کرتے ہیں ۔ اور ممکن ہے کہ بعض اوقات بالکل ہی نہ کرتے ہوں
اب جائے غور ہے کہ دنیا میں ان تکالیف کا بوجھ کس پر زیادہ ہے آیا انسان پر یا حیوان پر
ظاہر ہے کہ انسان ہی کو ان مشکلات دنیوی میں بہ نسبت حیوانات کے زیادہ حصہ لینا پڑتا ہے ۔
سوال: آپ نے جو کچھ بیان فرمایا۔ میں نے سمجھ لیا۔ اب یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ حیوانات کو بھی آئندہ عالم میں کوئی بدلہ دیا جاوے گا۔
جواب:،فرمایا:۔
ہاں ہم مانتے ہیں کہ علیٰ قدر مراتب سب کو ان کی تکالیف دنیوی کا بدلہ دیا جاوے گا اور انکے دکھوں