پاک ذات ہے ۔ جو اس کی رضا کے موافق چلتا ہے اس سے اس کا تعلق زیادہ سے زیادہ ہو جاتا ہے ہاں البتہ استعارہ رنگ میں محبت اور غضب کا لفظ خدا تعالیٰ کے لئے بھی بولا جاسکتاہے ۔
پس یادر کھو کہ یہ ایک دنیا کا کارخانہ ہے جس کے واسطے خدا تعالیٰ نے اپنی کامل حکمت سے موجود ہ نظام مقرر فرمایا ہے ۔ اور یہ اس نظام کے ماتحت اس طرح سے چل رہا ہے ۔ البتہ اس کے واسطے یہ الفاظ موزوں نہیں ۔ ہیں ۔ محبت کا لفظ ایک درد اور گداز رکھتا ہے ۔ اگر فرض بھی کر لین کہ خدا محبت ہے اور اس کی صفت غضب بھی ہے ( انسانی حالت کے خیال سے ) تو پھر ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا کو بھی ایک قسم کی تکلیف اور رنج و دکھ ہوتا ہے ۔ مگر یادرکھو ایسے ناقص الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے ۔
سوال: یہ تو میں نے سمجھ لیا ہے مگر یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ خدا نے یہ خاصہ کیوں رکھد یا کہ ادنیٰ اعلیٰ کا خادم ہو یا اس کی خوراک بنے اور اس کے سامنے ذلیل رہے ۔
جواب: ہم نے تو ابھی بیان کیا ہے کہ خدا کی صفات محبت رحم اور غضب کی تشریح ہم اس طور سے نہیں کرسکتے جیسا کہ انسانوں میں یہ صفات ہین ۔ انسانی حالت پر خدا تعالیٰ کا قیاس کرنا سخت غلطی ہے ۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک وسیع نظام ہے ۔ جو اس نے اسی طرح بنایا ہے ۔ اس نظام میں انسان اپنی حد سے زیادہ دست اندازی نہیں کر سکتا۔ اور یہ مناسب نہیں کہ دقیق دردقیق مصالح خدائی میں دخل دیکر ہر بات میں ایک سوال پیدا کر لے ۔یہ عالم ایک مختصر عالم ہے ۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایک وسیع عالم رکھا ہے جس میں اس نے ارادہ اور وعدہ کیا ہے کہ سچی اور ابدی خوشحالی دی جاوے گی۔ ہر دکھ جو اس جہان میں ہے اس کا تدارک اور تلافی دوسرے عالم میں کر دی جاوے گی۔ جو کمی اس جہان میں پائی جاتی ہے وہ آئندہ عالم میں پوری کر دی جاوے گی ۔ باقی رہا دکھ درد
تکلیف رنج و محن یہ تو ادنیٰ و اعلیٰ کویکساں برداشت کرنا پڑتا ہے اور یہ اس نظام عالم کے قیام کے واسطے لازمی اور ضروری تھے ۔ اگر وسیع نظر سے دیکھا جاوے تو کوئی بھی دکھ سے خالی نہیں ۔ ہر مخلوق کو علیٰ قدر مراتب اس میں سے حصلہ لینا ہی پڑتا ہے ۔ البہت کسی کو کسی رنگ مٰں ہے اور کسی کو کسی رنگ مین اگر باز چڑیوں اور پرندوں کو کھاتا ہے تو شیر چیتے اور بھیڑیے انسان کے بچوں کو بھی کھا جاتے ہیں ۔ سانپ بچھو وغیرہ بھی ستاتے ہیں ۔ غرج یہ سلسلہ تو اس طرھ سے چل رہا ہے ۔ اس سے خالی کوئی بھی نہیں ۔ البتہ ان کی تلافی اور تدارک کے واسطے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا عالم رکھا ہے ۔ اسی واسطے تو قرآن شریف میں اس کانام مالک یوم الدین بھی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ انسان خوشحال ہو مگر ممکن