یکم تا ۸؍فروری ۱۹۰۶ئ؁ خوفناک وقت میں بچ رہنا محض اللہ کے فضل پر منحصرہے :۔ ایک دوست نے حضرت کی خدمت میں عرض کیاکہ حضور کو الہام ہوا کہ پچیس فروری کے بعد جانا ہوگا تو کیا اب ہم شہر کے باہر کوئی مکان لے لیں؟ فرمایا: اس کا مطلب ہم ابھی نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہے اور نہ ہم ابھی باہر جانے کے واسطے کوئی مشورہ دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے خوفناک وقت میں بچ رہنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم پر منحصر ہے۔ صرف اندر رہنا یا باہر جانا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ یہ تو ظاہری اسباب ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ سچے دل کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف جھکنا چاہیئے۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیئے۔استغفار بہت کرنا چاہیئے اوراپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرنی چاہیئے ۔ سوائے اس کے کوئی صورت بچائو کی نہیں۔ زلزلہ کے متعلق متواتر الہامات ہو چکے ہیں اور خوابیں آئی ہیں۔ اور بھی بہت لوگوں نے ایسے خواب دیکھے ہیں۔۳؎ ۱۱؍فروری ۱۹۰۶ئ؁ دُعائوں کی قبولیت :۔ فرمایا:بڑے شُکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جو دعائیں کی جاتی ہیں وہ اکثر قبول ہوتی ہیں۔ قضاو قدر تو رُک نہیں سکتی اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کاملہ سے ہر ایک کام کرتا ہے ۔ لیکن اکثر دُعائوں میں اپنی مراد کے مطابق کامیابی ہو جاتی ہے اور ایک قطعی اور یقینی امر یہ ہے کہ دُعا کا نتیجہ خواہ کچھ ہی ہونے والا ہو۔ جواب ضرور مل جاتاہے ۔ خواہ وہ جواب حسبِ مراد ہو اور خواہ خلافِ مراد ہو۔