یکدم بھول جاتے ہیں اور وہی پہلا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔اس سے بچنا چاہیے۔جن صحبتوں ارو مجلسوں میں ایسی باتیں پیدا ہوں اُن سے الگ ہو جانا ضروری ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان تامام بری باتوں کے اجزاء کا علم ہو۔کیونکہ طلب شئے کے لیے علم کا ہوان سب سے اول ضروری ہے۔جب تک کسی چیز کا علم نہ ہو، اسے کیونکر حاصل کر سکتے ہیں؟ قرآں شریف نے بار بار تفصیل دی ہے پس بار بار قرآن شریف کو پڑھو۔اور تمہیں چاہیے کہ بُرے کاموں کی تفصیل لکھتے جائو۔اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے کوشش کرو کہ ان بدیوں سے بچتے رہو۔یہ تقویٰ کا پہلا مرحلہ ہوگا۔جب تم ایسی سعی کروگے تو اﷲتعالیٰ پھر تمہیں توفیق دے گا اور وہ کافوری شربت تمہیں دیا جاوے گا جس سے تمہارے گناہ کے جذبات بالکل سرد ہو جائیں گے۔اس کے بعد نیکیاں ہی سرزد ہوں گی۔جب تک انسان متقی نہیں بنتا یہ جام اُسے نہیں دیا جاتا اور نہ اس کی عبادات اور دعائوں میں قبولیت کا رنگ پید اہوتا ہے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
انما یتقبل اﷲ من المتقین (المائدۃ : ۲۸)
یعنی بیشک اﷲ تعالیٰ متقیون ہی کی عبادات کو قبول فرماتا ہے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ نماز روزہ بھی متقیون ہی کا قبول ہوتا ہے اس عبادات کی قبولیت کیا ہے اور اس سے مراد کیا ہے؟
عبادات کی قبولیت سے مراد
سو یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ نماز قبول ہو گئی ہے تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ نماز کے اثرات اور برکات نماز پڑھنے والے میں پید اہو گئے ہیں جب تک وہ برکات اور اثرات پید انہ ہوں اس وقت تک نری ٹکریں ہی ہیں۔
اس نماز یا روزہ سے کیا فائدہ ہوگا جبکہ اسی مسجد میں نماز پڑھی اور وہیں کسی دوسرے کی شکایت اور گلہ کر دیا۔یا رات کو چوری کرلی۔کسی کے مال یا امانت میں خیانت کر لی۔کسی کی شان پرجو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے بخل یا حسد کی وجہ سے حملہ کر دیا۔کسی کی آبرو پر حملہ کر دیا۔غرض اس قسم کے عیبوں اور برائیوں میں اگر مبتلا کا مبتلا رہا تو تم ہی بتائو۔اس نماز نے اس کو کیا فائدہ پہنچایا؟
چاہیے تو یہ تھا کہ نماز کے ساتھ اسکی بدیاں اور وہ برائیاں جن میں وہ مبتلا تھا کم ہو جائیں اور نماز اس کے لیے ایک عمدہ ذریعہ ہے۔پس پہلی منزل اور مشکل اُس انسان کے لیے جو مومن بننا چاہتا ہے یہی ہے کہ برے کاموں سے پرہیز کرے۔اسی کا نام تقویٰ ہے۔
اور یہ بھی یادرکھو کہ تقویٰ اس کا نام نہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرے۔بلکہ باریک درباریک بدیوںسے بچتا رہے مثلاً ٹھٹھے اور ہنسی کی مجلسوں میں بیٹھنا یا ایسی مجلسوں میں بیٹھنا جہاں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہتک ہو یا اس کے بھائی کی شان پر حملہ ہورہا ہو اگر چہ ان کی ہاں میں ہاں بھی