میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ بہت ہی کم ہوں گے جو ان باتوں کی رعایت رکھتے ہوں اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوں؛ ورنہ کثرت سے ایسے لوگ ملیں گے جو تقریباً جھوٹ بولتے ہیں اور ہر وقت ان کی مجلسوں میں دوسروں کا شکوہ و شکایت ہوتا رہتا ہے اور وہ طرح طرح سے اپنے کمزور اور ضعیف بھائیوں کو دکھ دیتے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔میں اس وقت برے کاموں کی تفصیل بیان نہیں کرسکتا۔قرآن شریف میں اول سے آخر تک اورامر اور نواہی اور احکام الٰہی کی تفصیل موجود ہے۔اور کئی سوشاخیں مختلف قسم کے احکام کی بیان کی ہیں۔خلاصۃً یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کو ہرگز منظور نہیں کہ زمین پر فساد کریں۔اﷲ تعالیٰ دنیا پر وحدت پھیلانا چاہتا ہے۔لیکن جو شخص اپنے بھائی کو رنج پہنچاتا ہے۔ظلم اور خیانت کرتا ہے،وہ وحدت کا دشمن ہے۔جبتک یہ بدخیال دل سے دور نہ ہوں کبھی ممکن نہیں کہ سچی وحدت پھیلے۔اس لیے اس مرحلہ کو سب سے اول رکھا۔ تقویٰ کی حقیقت تقویٰ کیا ہے؟ ہر قسم کی بدی سے اپنے آپ کو بچانا۔پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابرار کے لیے پہلا انعام شربت کافوری ہے۔اس شربت کے پینے سے دل برے کاموں سے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد ان کے دلوں میں برائیوں اور بدیوں کے لیے تحریک اور جوش پید انہیں ہوتا۔ایک شخص کے دل میں یہ خیال تو آجاتا ہے کہ یہ کام اچھا نہیں یہانتک کے چور کے دل میں بھی یہ خیال آہی جاتا ہے مگر جذبۂ دل سے وہ چوری بھی کر ہی لیت اہے۔لیکن جن لوگوں کو شربت کافوری پلادیا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہوجاتی ہے کہ ان کے دل میں بدی کی تحریک ہی پید انہیں ہوتی بلکہ دل برے کاموں سے بیزار اور متنفر ہو جاتا ہے۔گناہ کی تمام تحریکوں کے مواد دبادیئے جاتے ہیں۔یہ بات خدا تعالیٰ کے فضل کے سوا میسر نہیں آتی۔جب انسان دعا اور عقد ہمت سے خدا تعالیٰ کے فضل کو تلاش کرتا ہے اور اپنے نفس کے جذبات پر غالب آنے کی سعی کرتا ہے تو پھر یہ سب باتیں فضل الٰہی کو کھینچ لیتی ہیں اور اُسے کافوری جام پلایا جات اہے ۔جو لوگ اس قسم کی تبدیلی کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں زمرۂ ابدال میں داخل فرماتا ہے۔اور یہی تبدیلی ہے جو ابدال کی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بھی عموماً دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے جب اس قسم کی باتوں کو سنتے ہیں تو اُن کے دل متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ اچھا بھی سمجھتے ہیں۔لیکن جب اس مجلس سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے احباب اور دوستوں سے ملتے ہیں تو پھر وہی رنگ اُن میں آجاتا ہے اور اُن سنی ہوئی باتوں کو