ہواور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حر ج پہنچے۔ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہوان ثابت ہو یااس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پید اہو۔یہ سب بُرے کام ہیں۔ایسا ہی بخل۔غضب یہ سب برے کام ہیں۔پس اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان ان سے پرہیز کرے اور ہر قسم کے گناہوں سے جو خواہ آنکھوں سے متعلق ہوں یا کانوں سے ،یا ہاتھوں سے یا پائوں سے،بچتارہے۔کیونکہ فرمایا ہے ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والھوادکل اولئک کان عنہ مسئولا (بنی اسرائیل : ۳۷) یعنی جس بات کا علم نہیں خواہنخواہ اس کی پیروی مت کرو۔کیونکہ کان،آنکھ،دل اور ہر ایک عضو سے پوچھا جاویگا۔بہت سی بدیاں صرف بدظنی سے ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔ایک بات کسی کی نسبت سنی اور جھٹ یقین کرلیا۔یہ بہت بُری بات ہے جس بات کا قطعی علم اور یقین نہ ہو اس کو دل میں جگہ مت دو۔یہ اصل بدشنی کو دور کرنے کے لیے ہے؎ٰکہ جبتک مشاہدہ اور فیصلہ صحیح نہ کرے نہ دل میں جگہ دے اور نہ ایسی بات زبان پر لائے۔یہ کیسی محکم او رمضبوط بات ہے۔بہت سے انسان ہیں جو زبان کے ذریعہ پکڑے جائیں گے۔یہاں دنیا میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے آدمی محض زبان کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں اور انہیں بہت کچھ ندامت اور نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ دل میں جو خطرات اور سرسری خیال گذرجاتے ہیں۔ان کے لیے کوئی موأخذہ نہیں۔مثلاً کسی کے دل میں گذرے کہ فلاں مال مجھے مل جاوے تو اچھا ہے۔یہ ایک قسم کا لالچ تو ہے لیکن محض اتنے ہی خیال پر جو طبعی طور پر دل میں آئے اور گذر جاوے کوئی موأخذہ نہیں’لیکن جب ایسے خیال کو دل میں جگہ دیتا ہے اور پھر عزم کرتا ہے کہ کسی نہ کسی حیلے سے وہ مال ضرور لینا چاہیے۔تو پھر یہ گناہ قابل موأخذہ لکھا جاتا ہے پس یہ اس قسم کے گناہ ہیں جو بہت ہی کم توجہی کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں۔اور یہ انسان کی ہلاکت کا موجب ہو جاتے ہیں۔بڑے بڑے اور کھلے گناہوں سے تو اکثر پرہیز کرتے ہیں۔بہت سے آدمی ایسے ہوں گے جنہوں نے کبھی خون نہیں کیا۔نقب زنی نہیں کی۔یا اور اسی قسم کے بڑے بڑے گناہ نہیں کئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کتنے ہیں جنہوں نے کسی کا گِلا نہیں کیا یا کسی اپنے بھائی کی ہتک کرکے اس کو رنج نہیں پہنچایا۔یا جھوٹ بول کر خطا نہیں کی؟یا کم از کم دل کے خطرات پر استقلال نہیں کیا!