خشک خیالی ایمان سے راضی ہو جائے۔اﷲ تعالیٰ کی معیت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچا تقویٰ اور پھر نیکی ساتھ ہو۔
یہ فخر کی بات نہیں کہ انسان اتنی ہی بات پر خوش ہو جاوے کہ مثلا ً وہ زنا نہیں کرتا۔یا اس نے خون نہیں کیا۔چوری نہیںکی۔یہ کوئی فضیلت ہے کہ برے کاموں سے بچنے کا فخر حاصت کرتا ہے؟ دراصل وہ جانتا ہے کہ چوری کرے گا تو ہاتھ کاٹا جاویگا۔یا موجودہ قناون کی روسے زندان میں جاوے گا۔اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ایسی چیز کا نام نہیں کہ بُرے کام سے ہی پرہیز کرے،بلکہ جبتک بدیوںکو چھوڑ کر نیکیاں اختیار نہ کرے وہ اس روحانی زندگی میں زندہ نہیں رہ سکتا۔نیکیاں بوط رغذا کے ہیں۔جیسے کوئی شخص بغیر غذا کے زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح جبتک نیکی اختیار نہ کرے تو کچھ نہیں۔
قرآن شریف میں ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ دو حالتیں ہوتی ہیں’ایک حالت تو وہ ہوتی ہے
یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا (الدھر : ۶)
یعنی ایسا شربت پی لیتے ہیں جس کی ملونی کافور ہو۔اس سے یہ مطلب ہے کہ دنیا کی محبت سے دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔کافور ٹھنڈی چیز ہے اور زہروں کو دبالیتا ہے، ہیضہ اور وبائی امراض کے لیے مفید ہے۔پس پہلا مرحلہ تقویٰ کا وہ ہے جس کو استعارہ کے رنگ میں
یشربون من کاس کان مزاجھا کافورا۔
ایسے لوگ جو کافوری شربت پی لیتے ہیں۔ان کے دل ہر قسم کی خیانت، ظلم،ہر نوع کی بدی او ربرے قویٰ سے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں۔اور یہ بات ان میں طبعاً اور فطرناً پیدا ہوتی ہے نہ کہ تکلف سے۔وہ ہر قسم کی بدیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔اور یہ بات ان میں طبعاً اور فطرتاً پیدا ہویت ہے نہ کہ تکلف سے۔وہ ہر قسم کی بدیوں سے بیزار ہو جاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ یہ معمولی بات نہیں۔بدیوں کا چھوڑ دینا آسان نہیں۔انجیل کا اکثر حصہ اسی سے پر ہے کہ بے کام نہ کرو۔مگر یہ پہلا زینہ ہے تکمیل ایمان کا۔اسی پر قانع نہیں ہو جانا چاہیے۔ہاں اگر انسان اس پر عمل کر یاور بدیوں کو چھوڑ دے تو دوسرے حصہ کے لیے اﷲ تعالیٰ آپ ہی مدد دیتا ہے۔یہ بات انسان منہ سے تو کہہ سکتا ہے کہ میں بدیوں سے پرہیز کرتا ہوں۔لیکن جب مختلف قسم کے برے کام سامنے آتے ہیں ۔تو بدن کانپ جاتا ہے۔
بعض گناہ موٹے موٹ یہوتے ہیں مثلاً جھوٹ بولنا، زنا کرنا،خیانت ،جھوٹی گواہی دینا اور اتلاف حقوق،شرک کرنا وغیرہ۔لین بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں ۔جو ان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اُسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔مثلاً کلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں؛ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے
ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا (الحجرات : ۱۳)
خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر