ہے کہ اس قدر عرصہ پہلے ایک واقعہ کی خبردے کہ ایک بچہ بھی پید اہو کر صاحب اولاد ہو سکتا ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا عظیم الشان معجزہ ہے۔یہی وجہ ہے جو خدا تعالیٰ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ صادق کی نشنای پیشگوئی ہے اور یہ بہت بڑا نشان ہے۔جس پر غور کرنا چاہیے۔قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان تدبر اور غور سے بڑھتا ہے۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے نشانوں پر غور نہیں کرتے ان کا قدم پھسلنے والی جگہ پر ہوتا ہے۔یہ بالکل سچی بات ہے کہ انسان اپنے ایمان میں اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا، جبتک خدا تعالیٰ کے اقوال،افعال اور قدرتوں کو نہ دیکھے۔ پس یہ سلسلہ اسی غرض کے لیے قائم ہوا ہے تا اﷲ تعالیٰ پر ایمان بڑھے۔یہ نشنا جو میں نے ابھی پیش کیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ایسا زبردست ہے کہ کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔برخلاف اس کے کسی دوسرے مذہب والے کو یہ حوصلہ اور ہمت کہاں ہے کہ وہ ایسے تازہ بتازہ نشان پیش کرے۔جماعت کے لوگ خوب سمجھ سکتے ہیں کہ کس قد نشانات ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔یہ محض خدا تعالیٰ کا کاروبار ہے کسی اور کو اس میں دخل نہیں۔ نشانات کا مقصد یقینا سمجھو کہ اﷲتعالیٰ ان پیشگوئیون کے ساتھ دکھاتا ہے کہ ایمانی قوت بڑھ جاوے اور یہ قوت بغیر ایسے نشناوں کے بڑھ نہیں سکتی کیونکہ ان میں خدا تعالیٰ کا زبردست ہاتھ نمایاں طو رپر نظر آتا ہے۔انسان ایسا جاندار ہے کہ جبتک خدا تعالیٰ کی طرف سے تربیت ایمانی کے لیے فیوض و برکات نہ ہوں وہ خود بخود پاک صاف نہیں ہو سکتا۔اور حقیقت میں پاک صاف ہونا اور تقویٰ پر قسم مارنا آسان امر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور تائید سے یہ نعمت ملتی ہے۔ تقویٰ اور احسان اور سچا تقویٰ جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو،اس کے حاصل کرنے کے لیے بار بار اﷲ تعالیٰ نے فرمایا یا ایھا الذین امنو ااتقو ال (آل عمران : ۱۰۳) اور پھر یہ بھی کہا ان اﷲ مع الذین اتقواوالذین ھم محسنون (النحل : ۱۲۹) یعنی اﷲ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت ممیں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو۔اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں۔بلکہ نیکی بھی کریں اور پھر یہ بھی فرمایا للذین احسنو االحسنی (یونس : ۲۷) یعنی ان نیکیون کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں۔مجھے یہ وحی بار بار ہوئی ان اﷲ مع الذین اتقو اوالذین ھم محسنون (النحل ۱۲۹) اور اتنی مرتبہ ہوئی کہ میں گن نہیں سکتا۔خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تاجماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو ئگے ہیں یا صرف