ہیں۔منافق ان کو سمجھ نہیں سکتے لیکن مومن اس پر ایمان لاتا اور یقین کرتا ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوںکہ اگر سب لوگ جو اس وقت موجود ہیں اور اس سلسلہ میں داخل ہیں یہ سمجھ کر کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے وہ دست بردار ہو جائیں اور بخل سے یہ کہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے تو خدا تعالیٰ ایک اور قوم پیدا کردے گا جو ان سب اخراجات کا بوجھ خوشی سے اٹھائے اور پھر بھی سلسلہ کا احسان مانے۔
ایک عظیم نشان
اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ کو بڑھائے۔پس کون ہے جو اُسے روک لے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ بادشاہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔پھر وہ زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔کب تھک سکتا ہے۔آج سے پچیس برس بلکہ اس سے بھی بہت پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ایسے وقت میں کہ ایک شخص بھی میرے پاس نہ تھا اور کبھی سال بھر میں بھی کوئی خط نہ آتا تھا۔ اس گمنامی کی حالت میں میں نے جو دعوے کئے ہیں وہ براہین احمدیہؔمیں چھپے ہوئے موجود ہیں’اور یہ کتاب مخالفوں اور موافقوں کے پاس موجود ہے بلکہ ہندوئوں عیسائیوں تک کے پاس بھی ہے۔مکہ،مدینہ اور قسطنطنیہ تک بھی پہنچی۔اسے کھول کر دیکھو کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا:
یا تون من کل فج عمیق و یا تیک من کل فج عمیق
یعنی تیرے پاس دور دراز جگہوں سے لوگ آئیں گے اور جن راستوں سے آئیں گے وہ راہ عمیق ہو جائیں گے۔پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو کثرت سے آئین گے تو اُن سے تھکنا نہیں اور اُن سے کسی قسم کی بداخلاقی نہ کرنا۔یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب لوگوں کی کثرت ہوتی ہے تو انسان ان کی ملاقات سے گھبراجات ا ہے اور کبھی بے توجہی کرتا ہے۔جو ایک قسم کی بداخلاقی ہے پس اس سے منع کیا اور کہا کہ ان سے تھکنا نہیں اور مہمان نوازی کے لوازم بجالانا۔ایسی حالت میں خبردی گئی تھی کہ کوئی بھی نہ آتا تھا۔اور اب تم سب دیکھ لو کہ کس قدر موجود ہو۔یہ کتنا بڑا نشان ہے؟ اس سے اﷲ تعالیٰ کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ایسی خبر بغیر عالم الغیب خد اکے کون دے سکتاہے۔نہ کوئی منجم نہ کوئی فراست والا کہہ سکت اہے۔
ان حالات پر جب ایک سعید مومن غور کرتا ہے،تو اُسے لذت آتی ہے۔وہ یقین کرتا ہے کہ ایک خد اہے جو اعجازی خبریں دیت اہے۔غرض اس خبر میں اس نے کثرت کے ساتھ مہمانوں کی آمد ورفت کی خبر دی۔پھر چونکہ ان کے کھانے پینے کے لیے کافی سامان چاہیے تھا اور ان کے فروکش ہونے کے لیے مکانوں کا انتظام ہونا چاہیے تھا۔پس اس کے لیے بھی ساتھ ہی خبردی
یا تیک من کل فج عمیق
اب غور کرو کہ جس کام کو اﷲ تعالیٰ نے خود کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور ارادہ کر لیا ے،کون ہے جو اس کی راہ میں روک ہو۔وہ خودا ساری ضرورتوں کا تکفل اور تہیہ کرتا ہے۔یہ بات انسانی طاقت سے باہر