تو جانیں فدا کردیں۔اس وکت جانوں کی ضرورت نہیں اس لیے کہ خدا کے مسیح نے جہاد کی حرمت کا فتویٰ شائع کر دیا ہے۔اب اگر ضرورت ہے تومال خرچ کرنے کی ضرورت ہے اس لیے کوئی مستقل فنڈ ہونا چاہیے۔ خواجہ صاحب اپنی تقریر کر ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس ؑ بھی تشریف لائے۔خواجہ صاحب نے سلسلہ کی ضروریات کے رواز افزوں اخراجات کا ذکر کرکے جماعت کو متوجہ کیا۔ان کے بیٹھ جانے پر خدام نے عرض کی کہ حضور کچھ ارشاد فامائیں۔جس پر حضور نے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی: خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنیوالون کیلئے بشارت دیکھو جو کچھ خواجہ صاحب نے بیان کیا ہے یہ سب کچھ صحیح اور درست ہے۔لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف اﷲ تعالیٰ اس جماعت کو حکم دیتا ہے کہ اپنی اپنی عملی حالت، قوت ایمانی کو درست کرکے دکھاویں کیونکہ جبتک عملی رنگ میں ایمان ثابت نہ ہو صرف زبان سے ایمان اﷲ تعالیٰ کے نزدیک منظور نہیں اور وہ کچف نہیں’زبان میں تو ایک مخلص اور منافق یکساں معلوم ہوتے ہیں۔ہر ایک شخص جو اپنا صدق اور ثبات قدم ثابت کرنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ عملی طور پر ظاہر کرکے جبتک عملی طور پر قدم آگے نہیں رکھت اآسمان پر اس کو مومن نہیں کہا جاتا۔ بعض شخصوں کے دل میں خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ آئے دن ہم پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں کہانتک برداشت کریں۔میں جانتاہوں کہ ہر شخص ایسا دل نہیں رکھتا کیونکہ ایک طبیعت کے ہی سب نہیں ہوتے۔بہت سے تنگدل اور کم ظرف ہوتے ہیں اور اس قسم کی باتیں کر بیٹھتے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ اﷲ تعالیٰ کو ان کی پروا کیا ہے۔ایسے شبہار ہمیشہ دنیاداری کے رنگ میں پیدا ہوا کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو توفیق بھی نہیں ملتی۔لیکن جو لوگ محض خدا تعالیٰ کے لیے قدم اُٹھاتے ہیں اور اس کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں اور اس بناء پر جو کچھ بھی خدمت دین کرتے ہیں اس کے لیے اﷲ تعالیٰ خود انہیں توفیق دے دیتا ہے۔اور اعلاء کلمۃ الاسلام کے لیے جن اموال کو وہ خرچ کرتے ہیں ان میں برکت رکھ دیتا ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جو لوگ صدق اور اخلاص سے قدم اُٹھاتے ہیں انہوں نے دیکھا ہوگاکہ کس طرح پر ا ندر ہی اندر انہیں توفیق دی جاتی ہے۔ وہ شخص بڑا نادان ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ آئے دن ہم پر بوجھ پڑتا ہے۔اﷲ تعالیٰ بار بار فرماتا ہے وﷲ خزائن السموت والارض (المنافقون : ۸) یعنی خدا تعالیٰ کے پاس آسمان و زمین کے خزانے