کی طرح ہوتی ہے جو پھوڑے کو چیر کر اس پر مرہم لگاتاہے۔نادان بچہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص میرا دشمن ہے اور اسکو گالیاں دیتا ہے۔مگر جراح کے دل میں نہ غصہ ہے نہ رنج۔نہ اس کو گالیوں پر کوئی غضب آتا ہے۔وہ ٹھنڈے دل سے اپنی خیر خواہی کا کام کرتا چلا جاتا ہے۔ صحبت مسیح موعودؑکی برکت مدرسہ کا ذکر تھا۔فرمایا : اس جگہ طلباء کا آکر پڑھنا بہت ضروری ہے۔جو شخص ایک ہفتہ ہامری صحبت میں آکر رہے،وہ مشرق و مغرب کے مولوی سے بڑھ جائے گا۔جماعت کے بہت سے لوگ ہمارے روبرو ایسے تیار ہنے چاہئیں جو آئندہ نسلوں کے واسطے واعظ اور معلم ہوں اور لوگوں کو راہ راست پر لاویں؎ٰ۔ ۲۹؍دسمبر ۱۹۰۵ء؁ صبح نو بجے مہمان خانہ جدید میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ایک عام مجلس ہوئی۔جس قدر مہمان مختلف شہروں اور قصبوں سے آئے ہوئے تھے وہ سب کے سب موجود تھے جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک لمبی تقریر فرمائی۔اس تقریر کا مفہوم یہ تھا کہ چونکہ حضرت اقدس ؑ کی غرض اور غایت یہ ہے کہ اسلام کی عام اشاعت اور تبلیغ ہو اور ہمارے یہاں ایک ایسی جماعت پیدا ہو جو اپنی علمی اور عملی قابلیتوں کی وجہ سے ممتاز ہو کر اس خدمت کو سرانجام دے۔اس لیے تین دن سے مدرسہ کے جدید انتظام کے مسئلہ پر غور کیا جتا رہا ہے اور آخر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ مدرسہ بصورت موجودہ بھی قائم رہے اور مبلغین اور واعظین کے لیے ایک الگ جماعت کھول جاوے۔اس کے لیے روپیہ کی ضرورت ہے۔خواجہ صاحب نے شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا کہ دنیا کی کامیابیاں بھی دین ہی کے ماتحت ہیں اور دین سے الگ ہو کر دنیا کی کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی۔غرض خواجہ صاخب کی تقریر کا خلاصہ سلسلہ کی ضروریات اور ان کی تکمیل کے لیے قوم کے اپنے فرائض تھا۔اور اس میں صحابہ کرامؓ کے زمانہ کا اس زمانہ سے مقابلہ کرکے بتایا کہ انہوں نے