ایام جلسہ دسمبر ۱۹۰۵ء
حضرت مولوی عبد الکریم مرحوم کا ذکر خیر
باہر بہشتی مقبرہ میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ذکر تھا۔فرمایا:۔
وہ اس سلسلہ کی محبت میں بلکل محو تھے۔جب اوائل میں میرے پاس آئے تھے،تو سید احمد کے متعقد تھے۔کبھی کبھی ایسے مسائل پر میری ان کی گفتگو ہوتی جو سید احمد کے غلط عقائد میں سے تھے اور بعض دفعہ بحث کے رنگ تک نوبت پہنچ جاتی۔مگر تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک دن علانیہ کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ آج میں نے سب باتیں چھوڑدیں۔اس کے بعد وہ ہماری محبت میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی مخالفت کرنیوالے نہ تھے۔ان کو ہمارے ساتھ ایک پورا اتحاد اور پوری موافقت حاصل تھی۔کسی امر میں ہمارے ساتھ خلاف رائے کرنا وہ کفر سمجھتے تھے۔ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحاب الصّفہ میں سے ہوگئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے اپنی وحی میں کی تھی۔اُن کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گذری تھی اور دنیا کی عیش کا کوئی حصہ اُنہوں نے نہیں لیاتھا۔نوکری بھی انہوں نے اسی واسطے چھوڑدی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے۔پچھلے دنوں ان کو ایک نوکری دوسوروپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔خاکساری کے ساتھ اُنہوں نے اپنی زندگی گذاردی۔صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے۔اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے ان کے اندفاع میں عمر بسر کر دی۔باوجود اس کدر بیماری اور ضعف کے ہمیشہ ان کی قلم چلتی رہتی تھی۔اُن کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا’’مسلمانوں کا لیڈر‘‘۔
غرض میں جانتا ہوں کہ ان کا خاتمہ قابل رشک ہوا،کیونکہ ان کے ساتھ دنیا کی ملونی نہ تھی۔جس کے ساتھ دنیا کی ملونی ہوتی ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔انجام نیک ان کا ہوتا ہے جو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنے میں خاک ہو جائیں گے۔
ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے فرمایا:
ہمیں کسی کے ساتھ بغض و عداوت نہیں۔ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے۔اگر ہم آریوں یا عیسائیوں کے برخلاف کچھ لکھتے ہیں تو وہ کسی دلی عنا دیا کینہ کا نتیجہ نہیں ہوتا۔بلکہ اس وقت ہماری حالت اس جراح