یہ ریاء ہوگی لیکن ثواب کا باعث ہوگی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے لا تمش فی الارض مرحا (لقمان : ۱۹) زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ایک جنگ میں ایک شخص اکڑ کر اور چھاتی نکال کر چلتا تھا۔آنحضرت ﷺ نے دیکھ کر فرمایا کہ یہ فعل ناپسند ہے لیکن اس وقت اﷲ تعالیٰ اس کو پسند کرتاہے۔پس ؎ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی خلق کی تعریف غرض خلق محل پر مومن اور غیر محل پر کافر بنادیتا ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہ٭ں کہ کوئی خلق برا نہیں بلکہ بداستعمالی سے بُرے ہوجاتے ہیں۔ حضرت عمرؓکیغصہ کے متعلق آیا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا کہ قبل از اسلام آپ بڑے غصہ ور تھے۔حضرت عمرؓنے جواب دیا کہ غصہ تو وہی ہے؛ البتہ پہلے بے ٹھکانے چلتا تھا۔مگر اب ٹھکانے سے چلتا ہے۔اسلام ہر ایک قوت کو اپنے محل پر استعمال کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔پس یہ کبھی کوشش مت کرو کہ تمہارے قویٰ جاتے رہیں بلکہ ان قویٰ کا صحیح استعمال سیکھو۔ قرآن کریم اور انجیل کی اخلاقی تعلیم کا موازنہ یہ سب جھوٹے اور خیالی عقائد ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دو۔ممکن ہے یہ تعلیم اس وکت مختصّ المکان اور مختصّ الزمان کی طرح ہو۔ہمیشہ کے لیی یہ قانون نہ کبھی ہو سکتا ہے اور نہ یہ چل سکتا ہے۔اس لیے کہ انسان ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں۔اگر اس کی ایک ہی شاخ کی پروا کی جاوے تو باقی شاخیں تباہ اور برباد ہو جائیں گی۔عیسائی مذہب کی اس تعلیم میں جو نقص ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔اس سے انسان کے تمام قویٰ کی نشونما کیونکر ہوسکتی ہے۔اگر صرف درگذر ہی ایک عمدہ چیز ہوتی تو پھر انتقامی قوت اس کی قوتوں میں کیوں رکھی گئی ہے؟اور کیوں پھر اس درگذر کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاتا؟ مگر برخلاف اس کے کامل تعلیم وہ ہے جو اسلام نے پیش کی اور جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہم کو ملی ہے اور وہ یہ ہے:۔ جزٰؤاسیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علیٰ اﷲ (الشوری : ۴۱) یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو۔لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو،کوئی شر پید انہ ہوتا ہو تو اسکا اجر اﷲ تعالیٰ پر ہے۔اس سے صاف طور پرظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ خواہ نخواہ ضرور ہر مقام پر شر کا مقابلہ نہ کیا