ہے۔صحابہؓ نے وہ چلن اختیار کیا تھا۔پھر دیک لو کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچایا۔اُنہوں نے دنیا پر لات ماردی تھی اور بالکل حب دنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ اپنی خواہشوں پر ایک موت وارد کر لی تھی۔اب تم اپنی خالت کا ان سے مقابلہ کر کے دیکھ لو۔ کیا انہیں کے قدموں پر ہو؟ افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے۔ رأس کل خطیئۃ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت لے کر آئے تھے؟اﷲ تعالیٰ نے جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔ اجتنبو االرجس من الاوثان واجتبنو اقول الزور (الحج : ۳۱) بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیس ااحمق انسان اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بت پرست بت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بت بنات ایہ اور سمجھتا ہیکہ اس بت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپان مدار سمجھتے ہیں۔مگر میں تمہین یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ سچائی کی برکت مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔میرا اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے راہئی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے۔گویا جھوٹ کے سوا بچائو نہیں۔مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا ۔آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو