کہ مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زور دیا جاوے اور وہ اس امر کے قائل نہ ہوں کہ مسیح زندہ آسمان پر یگا ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میرے مخالف اپنی بدقسمتی سے اس سر کو نہیں سمجھتے اور خواہ نخواہ شور مچاتے ہیں۔ کاش یہ احمق سمجھتے کہ اگر ہم سب مل کر وفات پر زور دین گے تو ھپر یہ مذہب (عیسائی) نہیں رہ سکتا۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ اسلام کی زندگی اُس کی موت میں ہے۔ خود ایسائیوں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ جب یہ ثابت ہو جاوے کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ مر گیا ہے تو اُن کے مذہب کا کیا باقی رہ جاتا ہے؟ وہ خود اس امر کے قائل ہیں کہ یہی ایک مسئلہ ہے جو اُن کے مذہب کا استیصال کرتا ہے مگر مسلمان ہیں کہ مسیح کی حیات کے قائل ہو کر ان کو تقویت پہنچارہے ہیں اور اسلام کو نقصان پہنچاتے ہیں‘ ان کی وہی مثلا ہے ؎
یکے برسر شاخ و بُن مے برید
صلیب کو توڑنے والا ہتھیار
عیسائیوں کا جو ہتھیار اسلام کے خلاف تھا۔ اسی کو ان مسلمانوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا؎ٰ اور اپنی نا سمجھی اور کم فہمی سے چلا دیا جس سے اسلام کو اس قدر نقصان پہنچا مگر خوشی کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عین وقت پر اس سے ان کو آگاہ کر دیا اور ایسا ہتھیار عطا کیا جو صلیب کے توڑنے کے واسطے بے نظیر ہے اور ا سکی تائید اور استعمال کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا؛ چنانچہ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید سے اس موت مسیح کے ہتھیار نے صلیبی مذہب کو جس قدر کمزور اور سست کر دیا ہے وہ اب چھپی ہوئی بات نہیں رہی۔ عیسائی مذہب اور اس کے حامی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی فرقہ اور اسلسلہ اُن کے مذہب کو ہلاک کر سکتا ہے تو وہ یہی سلسلہ ہے؛ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر ایک اہل مذہب سے مقابلہ کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں مگر اس سلسلہ کے مقابلہ میں نہیں آتے۔بشپ صاحب کو جب مقابلہ کی دعوت کی گئی تو ہر چند اس کو بعض انگریزی اخباروں نے بھی خوش دلایا مگر پھر بھی وہ میدان میں نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے پاس عیسائیت کے استیصال کے لیے وہ ہتھیار ہیں جو دوسروں کو نہیں دیئے گئے اور اُن میں سے پہلا ہتھیار یہی موت مسیح کا ہتھیار