ثابت ہوتی ہے احادیث وفات کی تائید کرتی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا واقعہ معرات موت کی تصدیق کرتا ہے اور آپ گویا چشم دید شہادت دیتے ہیں۔کیونکہ آپؐ نے شب معراج حضرت عیسیٰ ؑ کو حضرت یحییٰ ؑ کے ساتھ دیکھا۔ اور پھر آیت
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرارسول ا (بنی اسرائیل : ۹۴)
مسیح کو زندہ آسمان پر جانے سے روکتی ہے۔کیونکہ جب کفٰر نے آپؐ سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ مانگا تو اﷲ تعالیٰ نے اآپؐ کو یہی جواب دیا کہ
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشرار سولا (بنی اسرائیل : ۹۴)
یعنی میرا رب اس وعدہ خلافی سے پاک ہے جو ایک مرتبہ تو وہ انسان کے لیے یہ قرار دے کہ وہ اسی زمین پیدا ہوا۔اور یہاں ہی مرے گا۔
فیھا تحیون وفیھا تموتون (الاعراف ۲۶)
میں تو ایک بشر رسول ہوں یعنی وہ بشریت میرے ساتھ موجود ہے جو آسمان پر نہیں جاسکتی۔ اور دراصل کفار کی غرض اس سوال سے یہی تھی۔ چونکہ وہ پہلے یہ سن چکے تھے کہ انسان اسی دنیا میں جیتا اور مرتا ہے۔ اس لیے اُنہوں نے موقعہ پاکر سوال کیا جس کا جواب ان کو ایسا دیا گیا کہ ان کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ پس یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے کہ مسیح وفٰت پا چکے ۔ہاں یہ ایک معجزا نہ نشان ہے کہ انہیں غفلت میں رکھ ااور ہوشیاروں کو مست بنادیا۔
مسیح ؑکی موت میں اسلام کی زندگی ہے
یہ بھی یاد رکھو کہ جن لوگوں نے یہ زمانہ نہیں پایا وہ معذور ہیں’ ان پر کوئی حجت پوری نہیں ہوئی اور اس وقت اپنے اجتہاد سے جو کچھ وہ سمجھے اس کے لیے اﷲ تعالیٰ سے اجر اور ثواب پائیں گے۔ مگ راب وقت نہین رہا۔ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اس نقاب کو اُٹھادیا اور اس مخفی راز کو ظاہر کر دیا ہے اور اس مسئلہ کے برے اور خوفناک اثروں کو تم دیکھ رہے ہو کہ اسلام تنزل کی حالت میں ہے۔ اور عیسائیت کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلما پر حملہ آور ہو رہے ہیۃ اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے۔ میں سچ سچ کہت اہوں کہ ایسیے ہی مسائل وہ لوگون کو سنا سنا کر برگشتہ کر رہے ہیں۔ اور وہ خصوصیتیں جو نادانی سے مسلمان اُن کے لیے تجویز کرتے ہیں سکولوں اور کالجوں میں پیش کر کے اسلام سے جدا کررہے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے؎ٰ۔
پس اس وقت چاہا ہے کہ مسلمان متنبہ ہو جائیں کہ ترقی اسلام کے لیے یہ پہلو نہایت ضروری ہے