مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو۔جو جماعت حضرت عیسیٰ ؑ نے تیار کی وہ ایسی کمزور اور ناقابل اعتبار تھی کہ خود یہی عیسائی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں۔ صحابہؓ اور حواریوں کا موازنہ انجیل سے ثابت ہے کہ وہ بارہ شاگرد جو اُن کی خاص قوت قدسی اور تاثیر کا نمونہ تھے۔ اُن میں سے ایک نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا۔اس نے تی روپے پر اپنے آقا و مرشد کو بیچ دیا اور دوسرے نے جو سب سے اول نمبر پر ہے اور شاگرد رشید کہلاتا تھا اور جس کے ہاتھ مین بہشت کی کنیجیاں تھیں۔یعنی پطرس۔ اس نے سامنے کھڑے ہوکر تین مرتبہ لعنت کی۔ جب خود حضرت مسیح کی موجودگی میں ان کا اثر اور فیض اس قدر تھا تو اب انیس سو سال گذرنے کے بعد خود اندازہ کر لو کہ کیا باقی رہا ہوگا۔ اس کے بالمقابل آنحضرت ﷺ نے جو جماعت تیار کی تھی وہ ایسی صادق اور وفادار جماعت تھی کہ انہوں نے آپؐ کے لیے جانیں دے دیں، وطن چھوڑ دیئے، عزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ دیا۔ غڑض آپؐ کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی۔یہ کیسی زبردست تاثیر تھی۔ اس تاثیر کا بھی مخالفوں نے اقرار کیا ہے اور پھر آپؐ کی تاثیرات کا سلسلہ بند نہیں ہوا بلکہ اب تک وہ چلی جاتی ہیں۔قرآن شریف کی تعلیم میں وہو اثر وہی برکات اب بھی موجود ہیں۔ قرآن کریم اور انجیل کا موازنہ اور پھر تاثیر کا ایک اور بھی نمونہ قابل ذکر ہے کہ انجیل کا کہیں پتہ ہی نہیں لگتا۔ خود عیسائیوں کو اس امر میں مشکلات ہیں کہ اصل انجیل کونسی ہے اور وہ کس زبان میں تھی اور کہاں ہے؟ مگر قرآن شریف کی برابرحفاظت ہوتی چلی آئی ہے۔ایک لفظ اور ایک نقطہ تک اس کا ادھر اُدھر نہیں ہوسکتا۔ اس قدر حفاظت ہوئی ہے کہ ہزاروں لاکھوں حافظ قرآن شریف کے ہر ملک او ہرقوم میں موجود ہیں جن میں باہم اتفاق ہے۔ ہمیشہ یاد کرتے اور سناتے ہیں۔ اب بتائو کہ کیا یہ آپؐ کے برکات اور زندہ برکات نہیں؟اور کیا ان سے آپؐ کی حیات ثابت نہیں ہوتی؟ غرض کیا قرآن شریف کی حفاظت کی رو سے اور کیا تجدید دین کے لیے ہر صدی پر مجدد کے آنے کی حدیث سے اور کیا آپؐکی برکات اور تاثیرات سے جو اب تک جاری ہیں آپؐ کی حیات ثابت ہوتی ہے۔اب غور طلب امر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات کے عقیدہ نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ کیا اخلاقی اور عملی طور پر اصلاح ہوئی ہے یا فساد پیدا ہوا ہے؟ اس امر پر جس قدر غور کریں گے اسی کدر اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی چلی جائیں گی۔میں سچ کہتا ہوں کہ اسلام نے اس عقیدہ سے بہت بڑا