وحدہٗ لا شریک خد اہے ۔لغت کی کوئی کتاب پیش کرو جس میں توفی کے یہ معنے خصوصیت سے حضرت عیسیٰ ؑ کے لیے کئے ہوں کہ زندہ آسمان پر مع جسم اٹھانا ہے اور سارے جہان کے لیے جب یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے موت کے ہوںگے۔اس قسم کی خصوصیت لغت کی کسی کتاب میں دکھائو۔ اور اگر نہ دکھا سکو اور نہیں ہے تو پھر خدا تعالیٰ سے ڈرو کہ یہ مبدأ شرک ہے۔ ا س غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمان عیسائیوں کے مدیون ٹھہرتے ہیں۔ اگر عیسائی یہ کہیں کہ جس حال میں تم مسیح کو زندہ تسلیم کرتے ہو کہ وہ آسمان پر ہے اور پھر اس کا آنا بھی مانتے ہو اور یہ بھی کہ وہ حکم ہو کر آئے گا۔اب بتائو کہ اس کے خد اہونے میں کیا شبہ رہا جبکہ یہ بھی ثابت نہ ہو کہ اس کی موت ہوگی۔ یہ کتنا بڑا مصیبت کا امر ہے کہ عیسائی سوال کرے اور اس کا جواب نہ ہو۔
غرض اس غلطی کا اثر بداب یہاں تک بڑھ گیا۔ یہ تو سچ ہے کہ دراصل مسیح کی موت کا مسئلہ ایسا عظیم الشان نہ تھا کہ اس کے لیے ایک عظیم الشان مامور کی ضرورت ہوتی۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مسلمانوںکی حالت بہت ہی نازک ہو گئی ہے۔انہوں نے قرآن کریم پر تدبر چھوڑ دیا ارو ان کی عملی حالت خراب ہو گئی۔ اگر ان کی عملی حالت درست ہوتی اور وہ قرآن کریم اور اس کی لغات پر توجہ کرتے تو ایسے معنے ہرگز نہ کرتے۔ انہوں نے اسی لیے اپنی طرف سے یہ معنے کر لئے۔ توفی کا لفظ کوئی نرالا اور نیا لفظ نہ تھا اس کے معنے تمام لغت عرب میں خواہ وہ کسی نے لکھگی ہوں موت کے کئے ہیں۔ پھر انہوں نے مع جسم آسمان پر اُٹھانے کے معنے آپ ہی کیوں بنالیے۔ ہم کو افسوس نہ ہوتا اگر آنحضرت ﷺ کے لیے بھی اس لفظ کے یہی معنے کر لیتے کیونکہ یہی لفظ آپ کے لیے بھی تو قرآن شریف میں آیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے
واما نرینک بعض الذی نعد ھم او نتوفینک (یونس : ۴۷)
اب بتائو کہ اگر اس لفظ کے معنے مع جسم آسمان پر اُٹھانا ہی ہیں تو کیا ہمارا حق نہیں کہ آپ کے لیے بھی یہی معنے کریں۔ کیا وجہ ہے کہ وہ نبی جو آنحضرت ﷺ سے ہزار ہاد رجہ کمتر ہے اس کے لیے جب یہ لفظ بولا جاوے تو اس کے من گھڑت معنے کرکے زندہ آسمان پر لے جاویں۔ لیکن جب سید الاوالین و الآخرین کے لیے یہ لفظ آوے تو اس کے معنے بجز موت کے اور کچھ نہ کریں۔ حالانکہ آپ کی زندگی ایسی ثابت ہے کہ کسی اور نبی کی ثابت نہیں۔
حیات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ثبوت
اور اس لیے ہم زور اور دعویٰ سے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ اگر کوئی نبی زندہ ہے تو وہ ہمارے نبی کریم ﷺ ہی ہین’ اکثر اکابر نے حیات النبی پر کتابیں لکھی ہیں۔اور