ہے جس میںسیاہی کے چھینٹے کرتے پر پڑے تھے اور وہ کرتہ اب تک موجود ہے۔یہ عجیب در عجیب اسرار ہیں جنکا ان پر ایمان نہیں وہ ایمان ہی کیا ہے؟
دین وہی ہے جو روحانیت سکھاتا ہے اور آگے قدم رکھواتا ہے۔ میں افسوس نہیں کرتا کہ ایسی بُری حالت کیوں ہوئی ہے جو اس وقت نظر آرہی ہے۔ یہ سب اسلام کے کمالات کے ظہور کی خاطر ہوا۔ بُت پرستی سے دست برداری کرانے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ایسی قوم پید اکر دی۔ یہ لوگ اسلام کی ڈیوڑھی پر ہیں۔ایک غیب کا دھکا لگے گا، تو تمہارے بھائی ہو جائیں گے؎ٰ۔
۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء
مسیح موعود کی بعثت اور سلسلہ کے قیام کی غرض
اعلیٰ حضرت حجۃ اﷲ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک تقریر جو آپ نے ۲۷؍دسمبر ۱۹۰۵ء
کو بعد نماز ظہر و عصر مسجد اقصیٰ میں فرمائی:
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۵ء کی صبح کو مہمان خانہ جدید کے بڑے حال میں احباب کا ایک بڑا جلسہ
اس غرض کے لیے منعقد ہوا تھاکہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصلاح کے سوال پر غور کریں۔
اس میں بہت سے بھائیوں نے مختلف پہلوئوں پر تقریریں کیں۔ ان تقریروں کے ضمن
میں ایک بھائی نے اپنی تقریر میں کہا کہ جہانتک میں جانتا ہوں۔ حضرت اقدس ؑ کے
سلسلہ اور دوسرے مسلمانوں میں صرف اسی قدر فرق ہے کہ وہ مسیح ابن مریم کا زندہ
آسمان پر جانا تسلیم کرتے ہیں اور ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور کوئی
نیا امر ایسا نہیں جو ہمارے اور ان کے درمیان اصولی طو رپر قابل نزاع ہو۔ اس سے چونکہ
کامل طو رپر سلسلہ کی بعثت کی غرض کا پتہ نہ لگ سکتا تھا بلکہ ایک امر مشتبہ اور کمزور معلوم ہوتا
تھا اس لیے ضروری امر تھا کہ آپ اس کی اصلاح فرماتے، چونکہ اس وقت کافی وقت نہ تھا۔اس لیے ۲۷؍دسمبر کو بعد ظہر و عصر آپ نے مناسب سمجھا