ہماری کسی سے دشمنی نہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مخالف مذہبوں کے لوگوں سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں بلکہ ان کے سچے خیر خواہ اور ہمدرد ہم ہیں۔ لیکن کیا کریں ہمارا مسلک اس جراح کی طرح ہے جس کو ایک پھوڑے کو چیرنا پڑتا ہے اور پھر وہ اس پر مرہم لگاتا ہے۔ بیوقوف مریض پھوڑ یکو چیرنے کیوقت شور مچاتا ہے، حالانکہ اگر وہ سمجھے تو اس پھوڑ ے کو چیر نے کی اصل غرض اسی کے مفید مطلب ہے کیونکہ جبتک وہ چیرانہ جاوے گا اور اس کی آلائش دو رنہ کی جاوے گی وہ اپان فساد اور بڑھائے گا اور زیادہ مضر اور مہلک ہوگا۔ اسی طرح پر ہم مجبور ہیں کہ ان کی غلطیاں ان پر ظاہر کریں اور صراط مستقیم ان کے سامنے پیش کریں۔جب تک وہ صراط مستقیم اختیار نہ کریں گے تو کیا بن سکتے ہیں؟ آریوں کے بعض غیر معقول عقائد ایک طرف ایسے لوگ موجود ہیں جو خد اتعالیٰ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور دوسری طرف ایسے ہیں۔ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے وجود کا بظاہر اقرار کیا ہے مگر وہ مانتے ہیں کہ اس نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ گویا ذرہ ذرہ خود خدا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ اس پر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پر میشر سرب شکتی مان ہے۔ یہ کیسا سرب شکتی مان ہے کہ کچھ پیدا نہیں کر سکتا ذرہ ذرہ انادی ہے ارو روحیں انادی ہیں۔اُن کے خواص اور قویٰ انادی ہیں۔ پھ رجوڑنا جاڑنا بھی کوئی کام ہو سکت اہے۔ میرے نزدیک ایسے عقیدہ میں اور دہریوں کے عقیدہ میں انیس (۱۹) اور بیس (۲۰) کا فرق ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اﷲ تعالیٰ اور اس کی قدرتوں پر ایمان نہیں لاتے۔ ہم تو اس خد اکو مانتے ہیں جو علیٰ کل شئی قدیر (البقرۃ : ۱۰۷) ہے… پھروہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی۔یہ ایسا بیہودہ اور غلط اصول ہے کہ اس کے لیے کسی بڑی دلیل کی حاجب نہیں ہے۔ خواب کے نظارے کس نے نہیں دیکھے؟ یہانتک کہ خواب بین مُردوں سے باتیں کرتا اور کھانے پینے کی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ وہ ہستی کہان سے ہوتی ہے؟ کیا نیستی سے نہیں ہوتی؟ اگر عقل ہوت اور باپ دادا میں روحانیت کا اثر ہوتا تو ایسی باتیں نہ کرتے۔ یہ باتیں یونانیوں کے اندھے فلاسفروں سے لی ہیں۔ اور علم دین سے محض بے خبے ہیں۔ علم دین کچھ اورحواس عطا کرتا فلسفی اور طبعی نہیں پہنچ سکتے۔ رؤیا میں سب امرو ہست ہو جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات روحانی امرو جسمانی رنگ بھی اختیار کر لیتے ہیں جیسا کہ میری وہ رؤیا ہے جو سرمۂ چشم آریہ میں درج