کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔آنحضرت ﷺ جب پیدا نہیں ہوئے تھے تو اس زبان نے عربوں کے اخلاق، عادات اور مذہب پر کیا اثر ڈالا؟ اور اب شام و مصر میں کیا فائدہ پہنچایا؟ ہاں یہ سچ ہے کہ عربی زبان اگر عمدہ طو رسے آتی ہو تو وہ قرآن شریف کی خادم ہوگی اور انسان قرآن شریف کے حقائق و معارف خوب سمجھ سکے گا۔ چونکہ قرآن اور احادیث عربی زبان میں ہیں اس لیے ا س زبان سے پورے طور پر باخبر ہونا بہت ہی ضروری ہو گیا ہے۔ اگر عربی زبان سے واقفیت نہ ہو تو قرآن شریف اور احادیث کو کیا سمجھے گا؟ ایسی حالت میں تو پتہ ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ آیت قرآن شریف میں ہے بھی یا نہیں۔ایک شخص کسی پادری سے بحث کرتا تھا اس سے کہدیا کہ قرآن شریف میں جو آیا ہے لولاک لما پادری نے جب کہا کہ نکال کر دکھائو تو بہت ہی شرمندہ ہونا پڑا۔ سادہ ترجمہ پڑھ لینے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا۔ ان علوم کا جو قرآن شریف کے خادم ہیں واقف ہونا ضروری ہے۔ اس طرح پر قرآن شریف پڑھایا جاوے اور پھر حدیث۔اور اس طرح پر ان کو اس سلسلہ کی سچائی سے آگاہ کیا جاوے اور ایسی کتابیں تیار کی جاویں جو اس تقسیم کے ساتھ ان کے لیے مفید ہوں۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح پر جاری ہو جاوے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مقاصد کا بہت بڑا مرحلہ طے ہو جاوے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ بیان کرنے والے تقسیم اوقات کے ساتھ بیان کریں اور پھر وہ ان بچوں سے امتحان لیں۔ غرض میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ تم نے سن لیا ہے اور میری اصل غرض اور منشاء کو تم نے سمجھ لیا ہے۔اس کے پورا کرنے کے لیے جو جو تجاویز اور پھر ان تجاویز پر جو اعتراض ہوتے ہیں وہ بھی تم نے بیان کر دیئے ہیں اور میں سن چکا ہوں۔میں مدرسہ کی موجودہ صورت کو بھی پسند کرتا ہوں۔اس سے نیک طبع بچے کچھ نہ کچھ اثر ضرور لے جاتے ہیں۔اس لیے یہ نہیں چاہیے کہ مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ۔ تجربہ کے طور پر سردست ایک سال کے لیے ہی ایسا انتظام کر کے دیکھو کہ ہفتہ وار جلسوں کے ذریعہ ان کو دینی ضروریات سے آگاہ کیا جاوے۔ ہاں عربی زبان کے لیے معقول انتظام ہونا چاہیے۔اگر اس کے لیے کچھ نہ ہو تو پھر ہماں اس درکاسہ والی بات ہوگی۔ گویا زبانی تو سب کچ ہوا مگر عملی اور حقیقی طور پر کچھ بھی نہ ہوا۔ اس بات کو بھی زیر نظر رکھ لو کہ اگر ان بچوں پر اور بوجھ ڈالا گیا تو وہ پا س ہونے کے خیالات میں دو طرفہ محنت نہیں کر سکیں گے۔ایک ہی طرف کوشش کریں گے۔اور اگر علیحدہ تعلیم ہوگی تو