لوگ اس امر کی بھی پابندی نہیں کرتے کہ پہیل اپنے گھر کو دیکھ لیں کہ دوسرے مذاہب پر جو اعتراض کرتا ہوں۔ وہ میرے گھر میں تو کسی تعلیم پر وارد نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی غرض محض اعتراض کرنا ہوتا ہے حق کو لینا نہیں ہوتا۔ ایک آریہ پر اگر نیوگ کا اعتراض کرو تو وہ قبل اُس کے کہ نیوگ کی حقیقت اور خوبی بیان کرے بلا سوچے سمجھے جھٹ اعتراض کردے گا کہ تم میں متعہ ہے؛ حالانکہ اول تو متعہ ہے ہی نہیں اور علاوہ بریں متعہ کی حقیقت تو اتنی ہے کہ وہ میعادی طلاق ہے۔ طلاق کو نیوگ سے کیا نسبت؟ اور کیا تعلق؟ جو شخص محض حصول اولاد کے لیے اپنی بیوی کو دوسرے سے ہمبستر کرواتا ہے وہ طلاق پر اعتراض کرے تو تعجب نہیں تو کیا ہے؟ واقفین زندگی کے لیے غیر زبانیں سیکھنے کی تلقین غرض اعتراض کرنے والوں کی یہ حالت ہے اور نہایت شوخی اور بیباکی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں جب اسلام کی حالت کو مشاہدہ کرتا ہوں تو میرے دل پر چوٹ لگتی ہے اور دل چاہت اہے کہ ایسے لوگ میری زندگی میں تیار ہوجاویں جو اسلام کی خدمت کر سکیں۔ ہم تو پابگور ہیں اور اگر اور تیار نہ ہوں تو پھر مشکل پیش آتی ہے۔ میرا مدعا اس قدر ہے کہ آپ لوگ تدبیر کریں خواہ کسی پہلو پر صاد کیا جاوے مگر یہ ہو کہ چند سال میں ایسے نوجوان نکل آویں جن میں علمی قبلیت ہو اور وہ غیر زبان کی واقفیت بھی رکھتے ہوں اور پورے طو رپر تقریر کرکے اسلام کی خوبیاں دوسروں کے ذہن نشین کر سکیں۔ میرے نزدیک غیر زبانوں سے اتنی ہی مراد نہیں کہ صرف انگریزی پڑھ لیں۔ نہیںاور زبانیں بھی پڑھیں اور سنسکرت بھی پڑھیں تاکہ ویدوں کو پڑھ کر اُن کی اصلیت ظاہر کر سکیں۔ اس وقت تک وید گویا مخفی پڑے ہوئے ہیں۔ کوئی ان کا مستند ترجمہ نہیں۔اگر کوئی کمیٹی ترجمہ کر کے صاد کردے تو حقیقت معلوم ہو جاوے۔ اصل بات یہ ہے کہ میں چاہتا ہوںکہ اسلام کو ان لوگوں اور قوموں میں پہنچایا جاوے جو اس سے محض ناواقف ہیں اور اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ جن قوموں میں تم اُسے پہنچانا چاہو اُن کی زبانوں کی پوری واقفیت ہو۔ ان کی زبانوں کی واقفیت نہ ہو اور ان کی کتابوں کو پڑھ نہ لیا جاوے تو مخالف پورے طور پر عاجز نہیں ہوسکتا۔ مولوی عبید اﷲ صاحب مرحوم نے تحفہ الہند نام ایک کتاب لکھی۔اندر امن نے اس کا جواب دیا اور بڑی گالیاں دیں۔اسلام پر اعتراض کر دیئے۔ اگر چہ اس کی بعض کتابیں جلادی گئی تھیں مگر