کہ اسلام کی سچی غمگسار اور ہمدرد ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہی قوم ہوگی جو بعید میں آنے والوں کے لیے نمونہ ٹھہرے گی۔اس کے ثمرات برکات آنے والوں کے لیے ہوں گے اور زمانہ پر محیط ہو جائیں گے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ جماعت بڑھے گی لیکن وہ لوگ جو بعد میں آئیں گے ان مدارج اور مراتب کو نہ پائیں گے جو اس وقت والوں کو ملیںگے۔ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا کہ وہ اس جماعت کو بڑھائے اور وہ دین اسلام اور توحید کی اشاعت کا باعث بنے۔ خادم دین واقفین زندگی کی ضرورت مدرسہ کی سلسلہ جنبانی کی بھی اگر کوئی غرض ہے تو یہی ہے۔ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ اس کے متعلق غور کیا جاوے کہ یہ مدرسہ اشاعت اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمت دین کو اختیار کریں۔ ایس اہی اس قبرستان کے ذریعہ بھی اشاعت اسلام کا ایک مستقل انتظام سوچا گیا ہے۔ مدرسہ کے متعلق میری روح ابھی فیصلہ نہیں کر سکی کہ کیا راہ اختیار کیا جاوے۔ایک طرف ضرورت ہے ایس یلوگوں کی جو عربی اور دینیات میں تو غل رکھتے ہوں۔ اور دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو آجکل کے طرز مناظرات میں پکے ہوں۔ علوم جدیدہ سے بھی واقف ہوں۔کسی مجلس میں کوئی سوال پیش آجاوے تو جواب دے سکیں اورکبھی ضرورت کے وقت عیسائیوں سے یا کسی اور مذہب والوں سے انہیں اسلام کی طرف سے مناظرہ کرنا پڑے توہتک کا باعث نہ ہوں بلکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور کمالات کو پرزور اور پرشوکت الفاظ میںظاہر کر سکیں۔ میرے پاس اکثر ایسے خطوط آئے ہیں جن میں ظاہر کیا گیا تھا کہ آریوں سے گفتگو ہوئی یا عیسائیوں نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہیں دے سکے۔ ایسے لوگ اسلام کی ہتک اور بے عزتی کا موجب ہو جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں اسلام پر ہر رنگ اور ہر قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ اس قسم کے اعتراضوں کا اندازہ کیا تھا تو میں نے دیھک اکہ اسلام پر تین ہزار اعتراض مخالفوں کی طرف سے ہوا یہ۔ پس یہ کس قدر ضروری ہے کہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی ہو جو ان تمام اعتراضات کا بخوبی جواب د یسکے۔ آجکل کے مناظروں اور مباحثوں کی حالت اور بھی بُری ہو گئی ہے کہ اصول کو چھوڑ کر فروع میں جھگڑتے ہیں؛ حالانکہ اس اصل کو کبھی ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے کہ جب کسی سے گفتگو ہو تو وہ ہمیشہ اصول میں محدود ہو،لیکن یا وہ گو اس طریق کو پسند نہیں کرتے وہ جہانتک اس سے ہو سکتا ہے اس سے نکلتے ہیں اور فروعات میں آکر اُلجھ جاتے ہیں۔ ایسے