تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھائو غرض جب کہ یہ حالت ہے اور اسلام کے دنیا میں آنے کی یہ غرض اور غایت ہے اور نجات کی حقیقت بغیر ا سکے متحقق نہیں ہوتی تو ہماری جماعت کو کس قدر فکر کرنا چاہیے کہ وہ ان باتوں کو جب تک حاصل نہ کر لیں اس وقت تک بے فکر اور مطمئن نہ ہو جاویں۔ میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک درخت کی طرح ہے وہ اصلی پھل جو شیریں ہوتا اور لذت بخشتا ہے نہیں آیا۔ جیسے درخت کو پہلے پھول اور پتے نکلتے ہیں۔پھر اس کو پھل لگتا ہے جو سنیرو پھل کہلاتا ہے وہ گر جاتا ہے۔ پھر ایک اور پھل آتا ہے۔ اس میں سے کچھ جانور کھا جاتے ہیں اور کچھ تیز آندھیوں سے گر جاتے ہیں۔ آخر جو بچ رہتے ہیں اور آخر تک پک کر کھانے کے قابل ہوتے ہیں وہ تھوڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے میں دیکھتا ہوں کہ یہ جماعت تو ابھی بہت ہی ابتدائی حالت میں ہے اور پتے بھی نہیں نکلے چہ جائیکہ ہم آج ہی پھل کھائیں۔ ابھی تو سبزہ ہی نکلا ہے جس کو ایک کتا بھی پامال کر سکتا ہے۔ ایسی حال تمہیں حفاظت کی کس قدر ضرورت ہے؟ پس تم استقامت اور اپنے نمونے سے اس درخت کی حفاظت کرو۔ کیونکہ تم میں سے ہر ایک اس درخت کی شاخ ہے اور وہ درخت اسلام کا شجر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتاہوں کہ اس شجر کی حفاظت کی جاوے۔ اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لیے سب سے اول تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمومن بن کر دکھائو اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلائو۔ اس پہلو میں مالی ضرورتوں اور امداد کی حاجب ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلا آیا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو بھی ایسی ضرورتیں پیش آئی تھیں اور صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ ایسے وقتوں پر بعض ان میں سے اپنا سارا ہی مال آنحصرت کو دیدیتے اور بعض نے آدھا دے دیا ارو اس طرح جہاں تک کسی سے ہو سکتا فرق نہ کرتا۔ مجھے افسوس سے ظاہر کرنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے ہاتھ میں بجز خشک باتوں کے اور کچھ بھی نہیں رکھتے اور جنہیں نفسانیت اور خود غرضی سے کوئی نجات نہیں ملی اور حقیقی خدا کا چہرہ ان پر ظاہر نہیں ہوا۔ وہ اپنے مذاہب کی اشاعت کی خاطر ہزاروں لاکھوں روپیہ دے دیتے ہیں اور بعض اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔عیسائیوں میں دیکھا ہے کہ بعض عورتوں نے دس دس لاکھ کی وصیت کر دی ہے۔ پھر مسلمانوں کے لیے کس قدر شرم کی بات ہے کہ وہ اسلام کے لیے کچھ بھی کرنا نہیں چاہتے یا نہیں کرتے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے روشن