بولتا تھا اور یا اب وہ سنتا اور دیکھت ابھی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے جب میں مسلمانوں کے منہ سے اس قسم کے الفاظ نکلتے سنتا ہوں کہ اب مکالمہ مخاطبہ کی نعمت کسی کو نہیں مل سکتی۔ یہ کیوں عیسائیوں یا آریوں کی طرح مہر لگاتے ہیں؟ اگر اسلام میں یہ کمال اور خوبی نہ ہو تو پھر دوسرے مذاہب پر اسے کیا فخر اور امتیاز حاصل ہوگا؟ نری توحید سے تو نہیں ہوسکتا کیونکہ برہمو بھی تو ایک ہی خد اکو مانتا ہے۔ وہ بھی صدقہ دیتا ہے۔ خدا کو اپنے طور پر یاد بھی کرتا ہے اور یہی اخلاقی صفات اس میں پائے جاتے ہیں تو پھر ایک مسلامن میں اور اس برہمو میں کیا فرق ہوا؟ یہ امور تو نقل سے بھی ہو سکتے ہیں۔ اسکا کیا جواب ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ بجز اسکے کہ اسلام کا روشن چہرہ ان امتیازی نشانوں کے ذریعہ دکھایا جاوے جو خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ ملتے ہیں۔ یقینا سمجھو کہ اصل جو فضل آسمان سے آت اہے اس کی کوئی چوری اور نقل نہیں کر سکتا۔ اگر اسلام میں مکالمہ مخاطبہ اور تفضلات نہ ہوتے تو اسلام کچھ بھی چیز نہ ہوتا۔ اس کا یہی تو فخر ہے کہ وہ ایک سچے مسلمان کو ان انعامات و اکرام کا وارث بنادیتا ہے اور وہ فی الحقیقت خدا نما مذہب ہے۔اسی دنای میں اﷲ تعالیٰ کو دکھا دیتا ہے اور یہی غرض ہے اسلام کی۔کیونکہ اسی ایک ذریعہ سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہو کر اسے پاک صاف بنا دیتی ہے اور حقیقی نجات کا دروازہ اس پر کھلتا ہے، کیونکہ جبتک خدا تعالیٰ پر کامل یقین نہ ہو گناہ سے کبھی نجات مل سکتی ہی نہیں۔ جیسے یہ ایک ظاہر امر ہے کہ جب انسان کو یقین ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو وہ ہرگز ہرگز اس جگہ داخل نہ ہوگا۔ یا زہر کے کھانے سے مرجانے کا یقین زہر کے کھانے سے بچاتا ہے پھر اگر خدا تعالیٰ پر پورا پورا یقین ہو کہ وہ سمیع اور بصیر ہے اور ہمارے افعال کی جزا دیت اہے اور گناہ سے اُسے سخت نفرت ہے تو اس یقین کو رکھ کر انسان کیسے جرأت کر سکتا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ اسلام کی روح اور اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ کا شرف وہ انسان کو عطا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ آسمان سے انعام و اکرام ملتے ہیں۔ جب انسنا اس مرتبہ اور مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی نسبت کہا جات اہے اولٰئک علیٰ ھدی من ربہم واولٰئک ھم المفلحون۔ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو کامل ترقی پاکر اپین رب کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نجات پائی ہے۔