چہرہ پر سے وہ حجاب جو پڑا ہوا ہے دور کردے اور اسی غرض کے لیے اس نے مجھے بھیجا ہے۔ مر کر خدا کے حضور جانا ہے یقینا یاد رکھو کہ خدا ہے اور مر کر اس کے حضور ہی جانا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سال آئندہ کے انہیں دنوں میں ہم میں سے یہاں کون ہوگا اور کون آگے چلا جائے گا۔جبکہ یہ حالت ہے اور یہ یقینی امر ہے پھر کس قدر بدقسمتی ہوگی۔ اگر اپنی زندگی میںقدرت اور طاقت رکھتے ہوئے اس اصل مقصد کے لیے سعی نہ کریں۔اسلام تو ضرور پھیلے گا اور وہ غالب آئے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے مگر مبارک ہوں گے وہ لوگ جو اس اشاعت میں حضہ لیں گے۔ یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے جو اُس نے تمہیں موقعہ دیا ہے۔یہ زندگی جس پر فخر کیا جاتا ہے ہیچ ہے اور ہمیشہ کی خوشی کی وہی زندگی ہے جو مرنے کے بعد عطا ہوگی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اسی دنیا اور اسی زندگی سے شروع ہو جاتی ہے اور اس کی تیاری بھی یہاں ہی ہوتی ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرکے وصیت کرنے کی تلقین عرصہ ہوا کہ خد اتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہوگا۔گویا اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اﷲت عالیٰ کے علم اور ارادہ میں جنتی ہیں۔ پھر اس کے متعلق الہام ہوا۔ انزل فیھا کل رحمۃ۔ اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی۔ اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں دفن ہو۔کیا عمدہ موقعہ ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کر لے اور اﷲ تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کرلے۔یہ صدی جس کے تیئیس (۲۳) سال گذرنے کو ہیں گذر جائے گی اور اس کے آخر تک موجودہ نسل میں سے کوئی نہ رہے گا اور اگر نکما ہو کر رہا تو کیا فائدہ؟ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنا صدقہ پہلے بھیجو۔ یہ لفظ صدقہ کا صدق سے لیا گیا ہے۔ جب تک اﷲ تعالیٰ کی راہ میں کوئی کامل نمونہ اپنے صدق اور اخلاص کا نہیں دکھاتا۔لاف زنی سے کچھ بن نہیں سکتا۔ اَلوصیّت اشتہار میں جو میں نے حصہ جائیداد کی اشاعت اسلام کے لیے وصیت کرنے کی قید لگائی ہے۔ میں نے دیکھاکہ کل بعض نے ۶؍۱ کی کردی ہے۔ یہ صدق ہے جو ان سے کراتا ہے اور جب تک صدق ظاہر نہ ہو کوئی مومن نہیں کہلاسکتا۔ تم اس بات کو کبھی مت بھولو کہ خد اتعالیٰ کے فضل و کرم کے بغیر جی ہی نہیں سکتے چہ جائیکہ موت سر پر ہو۔ طاعون کا موسم پھر آرہا ہے۔ زلزلہ کا خوف الگ دامنگیر ہے۔ وہ تو بڑا ہی