معرفت کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اس ترقی کو پالیتا ہے جو ہدایت کا اصل مقصود تھا۔ اس پر وہ انعام و اکرام ہونے لگتے ہیں جو مکالمہ الٰہیہ سے ملتے ہیں۔ اسلام میں وحی و الہام کا دروازہ کھلا ہے یہ یاد رکھو کہ ال تعالیٰ نے وحی و الہام کے دروازہ کو بند نہیں کیا۔ جو لوگ اس امت کو وحی و الہام کے انعامات سے بے بہرہ ٹھہراتے ہیںوہ سخت غلطی پر ہیں اور قرآن شریف کے اصل مقصد کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں۔ ان کے نزدیک یہ امت وحشیوں کی طرح ہے اور آنحضرت ﷺ کی تاثیرات اور برکات اک معاذ اﷲ خاتمہ ہو چکا اور وہ خدا جو ہمیشہ سے متکلم خدا رہا ہے اب اس زمانہ میں آکر خاموش ہوگیا۔ وہ نہیں جانتے کہ اگر مکالمہ مخاطبہ نہیں تو ھدی للمتقین کا مطلب ہی کیا ہوا؟ بغیر مکالمہ مخاطبہ کے تو اس کی ہستی پر کوئی دلیل قائم نہین ہوسکتی۔ اور پھر قرآن شریف یہ کیوں کہا والذین جاھدو ا فینا لنھدینہم سبلنا (العنکبوت : ۷۰) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا ان الذین قالو ا ربنا اﷲ ثم استقامو اتتنزل علیھم الملائکۃ الا تخافو اولا تحزنوا (حٰمٓ السجدۃ : ۳۱) یعنی جن لوگوں نے اپنے قول اور فعل سے بتادیا کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور پھر انہوں نے استقامت دکھائی ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ فرشتوں کا نزول ہوا اور مخاطبہ نہ ہو۔ نہیں بلکہ وہ انہیں بشارتیں دیتے ہیں۔ یہی تو اسلام کی خوبی اور کمال ہے جو دوسرے مذاہب کو حاصل نہیں ہے۔ استقامت بہت مشکل چیز ہے یعنی خواہ ان پر زلزلے آئیں،فتنے آئیں۔ وہ ہر قسم کی مصیبت اور دکھ میں ڈالے جاویں مگر ان کی استقامت میں فرق نہیں آتا۔ ان کا اخلاص اور وفا داری پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اس قابل ہوتے ہیں کہ ان پر خدا تعالیٰ کے فرشتے اُتریں اور انہیں بشارت دیں کہ تم کئی غم نہ کرو۔ یہ یقینا یاد رکھو کہ وحی اور الہام کے سلسلہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اکثر جگہ وعدے کئے ہیں۔ اور یہ اسلام ہی سے مخصوص ہے؛ ورنہ عیسائیوں کے ہاں بھی مہر لگ چکی ہے۔ وہ اب کوئی شخص ایسا نہیں بتا سکتے جو اﷲتعالیٰ کے مخاطبہ مکالمہ سے مشرف ہو۔اور ویدوں پر تو پہلے ہی سے مہر لگی ہوئی ہے۔ ان کا تو مذہب ہی یہی ہے۔ کہ ویدوں کے الہام کے بعد پھر ہمیشہ کے لیے یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ گویا خد اپہیل کبھی بولا تھا مگر اب وہ گونگا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اس وقت کلام نہیں کرتا اور کوئی اس کے اس فیض سے بہرہ ور نہیں تو اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ پہلے