کپڑا مراد نہیں ہے بلکہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ خرچ کرتے رہتے ہیں۔
غرض یہ انفاق عام انفاق ہے اور اس کے لیے مسلمان یا غیر مسلمان کی بھی شرط نہیں اور اس لیے یہ انفٰق دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک فطرتی، دوسرا زیرِ اثر نبوت۔ فطرتی تو وہی ہے جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ تم میں سے کون ہے اگر کوئی قیدی یا بھوکا آدمی جو کئی روز سے بھوکا ہو یا ننگا ہو آکر سوال کرے اور تم اُسے کچھ نہ کچھ دے نہ دو۔ کیونکہ یہ امر فطرت میں داخل ہے۔
اور یہ بھی میں نے بتادیا ہے کہ ممارزقنھم روپیہ پیسہ سے مخصوص نہیں خواہ جسمانی ہو۔ یا علمی سب اس میں داخل ہے۔ جو علم سے دیتا ہے وہ بھی اسی کے ماتحت ہے۔ مال سے دیتا ہے وہ بھی داخل ہے۔ طبیب ہے وہ بھی داخل ہے۔
لِلّٰہی وقف کا مقام
مگر بموجب منشاء ھدی للمتقین ابھی تک اس مقام تک نہیں پہنچا جہاں قرآن شریف اسے لے جانا چاہتا ہے اور وہ وہ مقام ہے کہ انسان اپنی زندگی ہی خدا تعالیٰ کے لیے وقف کردے۔ اور یہ للّٰہی وقف کہلاتا ہے۔ اس حالت اور مقام پر جب ایک شخص پہنچتا ہے تو اس میں مما رہتا ہی نہیں۔کیونکہ جبتک وہ مما کی حد کے اندر ہے اس وقت تک وہ ناقص ہے اور اس علت غائی تک نہیں پہنچا جو قرآن مجید کی ہے، لیکن کامل اسی وقت ہوتا ہے جب یہ حد نہ رہے اور اس کا وجود، اس کا ہر فعل، ہر حرکت و سکون محض اﷲ تعالیٰ کے حکم اور اذن کے ماتحت بنی نوع کی بھلائی کے لیے وقف ہو۔ دوسر ے لفظوں میں یہ کہو کہ مما رز قنھم ینفقون کا کام یہی ہے جو ھدی للمتقین کے منشا کے موافق ہے؎ٰ۔
متقی کی چوتھی صفت
اس کے بعد ایک اور صفت متقیوں کی بیان کی یعنی وہ
والذین یومنون بما انزل الیک (البقرۃ : ۵)
کے موافق ایمان لاتے ہیں اور ایسا ہی جو کچھ آنحضرت ﷺ سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی ایمان ہے تو پھر ہدایت کیا ہے؟ وہ ہدایت یہ ہے کہ ایسا انسان خود اس قابل ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی اور الہام کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور وہ وحی الٰہی اس پر بھی اُترتی ہے جس سے اس کا ایمان ترقی کر کے کامل یقین اور