صورت میں ان باتوں پر عمل بھی کرتی ہے۔ پھر ویدوں نے آکر دنیا کو کیا بخشا؟ یا تو یہ ثابت کرو کہ جو قومیں وید کو نہیں مانتی ہیں ان میں نیکیاں بالکل مفقود ہیں اور یا کوئی امتیازی نشان بتائو۔ قرآن شریف کو جہاں سے شروع کیا ہے ان ترقیوں کا وعدہ کر لیا ہے جو بالطبع روح تقاضا کرتی ہے؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں اھدنا الصراط المستقیم (الفاتحہ : ۴) کی تعلیم کی اور فرمایا کہ تم یہ دعا کرو کہ اے اﷲ ہم کو صراط مستقیم کی ہدایت فرما۔ وہ صراط مستقیم جو ان لوگوں کی راہ یہ جن پر تیرے انعام و اکرام ہوئے۔ اس دعا کے ساتھ ہی سورۃ البقرہ کی پہلی ہی آیت میں یہ بشارت دے دی۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین گویا روحیں دعا کرتی ہیں اور ساتھ ہی قبولیت اپنا اثر دھاتی ہے اور وہ وعدہ دعا کی قبولیت کا قرآن مجید کے نزول کی صورت میں پورا ہوتا ہے۔ ایک طرف دعا ہے اور دوسری طرف اس کا نتیجہ موجود ہے۔یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور کرم ہے جو اس نے فرمایا۔مگر افسوس دنیا اس سے بے خبر اور غافل ہے اور اس سے دور رہ کر ہلاک ہو رہی ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو ابتدائے قرآن مجید میں متقیوں کے صفات بیان فرمائے ہیں۔ ان کو معمولی صفات میں رکھ اہے۔ لیکن جب انسان قرآن مجید پر ایمان لا کر اُسے اپنی ہدایت کے لیے دستور العمل بناتا ہے تو وہ ہدایت کے ان اعلیٰ مدارج اور مراتب کو پالیتا ہے جو ھدی للمتقین میں مقصود رکھے ہیں۔ قرآن شریف کی اس علت غائی کے تصور سے ایسی لذت اور سرور آتا ہے کہ الفاظ میں ہم اس کو بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور قرآن مجید کے کمال کا پتہ لگتا ہے۔ متقی کی تیسری علامت پھر متقی کی ایک اور علامت بیان فرمائی ومما رزقنھم ینفقون (البقرۃ : ۴) یعنی جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی حالت ہوتی ہے اور اس میں سب کے سب شریک ہیں کیونکہ عام طو رپر یہ فطرت انسانی کا ایک تقاضا ہے کہ اگر کوئی سائل اس کے پاس آجاوے تو کچھ نہ کچھ اُسے ضرور دے دیتا ہے۔ گھرمیں دس روٹیاں موجود ہوں اور کسی سائل نے آکر صدا کی تو ایک روٹی اس کو بھی دے دے گا۔ یہ امر زیر ہدایت نہیں ہے بلکہ فطرت کا ایک طبعی خاصہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں ممارزقنھم ینفقون عام ہے۔ اس سے کوئی خاص شئے روپیہ پیسا یاروٹی