روحانی سلطنت میں مفسدہ پردازی کرتے ہیں۔ اُن کو کچل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اورروحانی طو رپر ایک نیاسکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن و امان کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔یہی وہ حالت اور درجہ ہے جو نفس مطمئنہ کہلاتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت کسی قسم کی کشمکش اور کوئی فساد پایا نہین جاتا۔ بلکہ نفس ایک کامل سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ کا خاتمہ ہو کر نئی سلطنت قائم ہو جاتی ہے اور کوئی فساد اور مفسدہ باقی نہیں رہتا۔ بلکہ دل پر خدا تعالیٰ کی فتح کامل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کے عرش دل پر نزول فرماتا ہے۔ اسی کو کمال درجہ کی حالت بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا ان اﷲ یامر بالعدل والاحسان وایتای ذی القربیٰ (النخل : ۹۱) یعنی بیشک اﷲ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتا اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتاء ذی القربیٰ کا حکم ہے۔ حالت عدل عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امارہؔ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے۔ اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرحسے اس کو دبالوں ارو اتفاق سے اس کی میعاد بھی گذرجاوے۔ اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بیباک ہوگا کہ اب تو قانونی طو رپر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں۔عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں۔ اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں ۔یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت ﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھ۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہین کرنی چاہیے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے۔ حالت احسان اس کے بعد احسان کا درجہ ہے۔ جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں توڑتا۔ اﷲ تعالیٰ اسے توفیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اور ترقی کرتا ہے۔یہانتک کہ عدل ہی نہین کرتا بلکہ تھوڑی سے نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے۔ لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی