غرض یاد رکھو کہ یقیمون الصلوٰۃ وہ ابتدائی درجہ اور مرحلہ ہے جہاں نماز بے ذوقی اور کشاکش سے ادا کرتا ہے، لیکن اس کتاب کی ہدایت ایسے آدمی کے لیے یہ ہے کہ اس مرحلہ سے نجات پا کر اس مقام پر جا پہنچتا ہے جہاں نماز اس کے لیے قرۃ العین ہو جاوے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس مقام پر متکی سے مراد وہ شخص ہے جو نفس لوامہ کی حالت میں ہے۔
نفس کے تین درجے
نفس کے تین درجے ہیں۔ نفس امارہؔ۔لوامہؔ۔مطمئنہؔ۔
نفس امارہ وہ ہے جو فسق وفجور میں مبتلا ہے اور نافرمانی کا غلام ہے۔ ایسی حالت میں انسان نیکی کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک سرکشی اور بغاوت پائی جاتی ہے لیکن جب اس سے کچھ ترقی کرتا اور نکلتا ہے تو وہ وہ حالت ہے جو نفس لوامہ کہلاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اگر بدی کرتا ہے تو اس سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اپنے نفس کو ملامت بھی کرتا ہے۔ اور اس طرح پر نیکی کی طرف بھی توجہ کرتا ہے۔ لیکن اس حالت میں وہ کامل طور پر اپنے نفس پر غالب نہیں آتا، بلکہ اس کے اور نفس کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس میں کبھی وہ غالب آجاتا ہے ارو کبھی نفس اسے مغلوب کر لیتا ہے۔یہ سلسلہ لڑائی کا بدستور جاری رہتا ہے۔ یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرتا ہے اور آخر اُسے کامیاب اور بامراد کرتا ہے اور وہ اپنے نفس پر فتح پالیتا ہے۔ پھر تیسری حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کا نام نفس مطمئنہ ہے۔ اس وقت اس کے نفس کے تمام گند دور ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کے فساد مٹ جاتے ہیں۔ نفس مطمئنہ کی آخری حالت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے دو سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہو کر ایک فتح پالے اور وہ تمام مفسدہ دور کرکے امن قائم کرے اور پہلا سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس امر کی طرف اشارہ ہے۔
ان الملوک اذا دخلو اقریۃ افسدوھا وجعلو ااعزۃ اھلہا اذلۃ (النمل ۳۵)
یعنی جب بادشاہ کسی گائوں میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا تانا بانا سب تباہ کر دیتے ہیں۔ بڑے بڑے نمبردار، رئیس نواب ہی پہلے پکڑے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور ذلیل کیے جاتے ہیں اور اس طرح پر ایک عظیم تغیر واقع ہوتا ہے۔یہی ملوک کا خاصہ ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے۔ اسی طرح پر جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے۔ شیطان کے غلامون کو قابو کیا جاتا ہے۔ وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی