ہدایت کیا ہوتی ہے؎ٰ؟اس وقت بجائے یقیمون الصلوٰۃ کے ان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اس کشمکش اور وساوس کی زندگی سے نکل جاتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ اس غیب کے ذریعہ انہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جس کی نسبت فرمایا ہے کہ بعض آدمی ایسے کامل ہو جاتے ہیں کہ نماز ان کے لیے بمنزلہ غزا ہوجاتی ہے اور نماز میں ان کو وہ لذت اور ذوق عطاکیا جاتا ہے، جیسے سخت پیاس کے وقت ٹھنڈا پانی پینے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ وہ نہایت رغبت سے اُسے پیتا ہے اور خوب سیر ہو کر خظ حاصل کرتا ہے یا سخت بھوک کی حالت ہو اور اُسے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا خوش ذائقہ کھانا مل جاوے جس کو کھا کر وہ بہت ہی خوش ہوتا ہے۔یہی حالت پھر نماز میں ہو جاتی ہے۔ وہ ننماز اس کے لیے ایک قسم کا نشہ ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ سخت کرب اور اضطراب محسوس کرتا ہے۔لیکن نماز کے ادا کرنے سے اسکے دل میں ایک خاص سرور اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے جس کو ہر شخص نہیں پاسکتا اور نہ الفاظ میں یہ لذت بیان ہو سکتی ہے اور انسان ترقی کرکے ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت ہو جاتی ہے اور اس کو نمازکے کھڑے کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اس لیے کہ وہ نماز اس کی کھڑی ہی ہوتی ہے اور ہر وقت کھڑی ہی رہتی ہے۔ اس مین ایک طبعی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہوتی ہے۔ انسان پر ایسی حالت آتی ہے کہ اس کی محبت اﷲ تعالیٰ سے محبت ذاتی کا رنگ رکھتی ہے ۔اس میں کوئی تکلف اور بناوٹ نہیں ہوتی ۔ جس طرح پر حیوانات اور دوسرے انسان اپنے ماکو لات اور مشروبات اور دوسری شہوات میں لذت اٹھاتے ہیں اس سے بہت بڑھ چڑھ کر وہ مومن متقی نماز میں لذت پاتا ہے اس لیے نماز کو خوب سنوار سنوار کر پڑھنا چاہیے۔ نماز ساری ترقیوں کی جڑ اور زینہ ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ نماز مومن کا معراج ہے۔ اس دین میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اﷲ ،راست باز، ابدال،قطب گذرے ہیں۔ انہوں نے یہ مدارج اور مراتب کیونکر حاصل کئے؟اسی نماز کے ذریعہ سے۔ خود آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں قرۃ عینی فی الصلوٰۃ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اور فی الحقیقت جب انسان اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو اس کے لیے اکمل اتم لذت نماز ہی ہوتی ہے اور یہی معنے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے ہیں۔ پس کشاکش نفس سے انسان نجات پا کر اعلیٰ مقام پر پنچ جاتا ہے۔