دوزخ، حشر اجساد اور وہ تمام امور بھی جو ابھی تک پردۂ غیب میں ہیں شامل ہیں۔اب ابتدائی حالت میں تو مومن ان پر ایمان لاتا ہے لیکن ہدایت یہ ہے کہ اس حالت پر اسے ایک انعام عطا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا علم غیب سے انتقال کر کے شہود کی طرف آجاتا ہے اور اس پر پھر ایسا زمانہ آجاتا ہے کہ جن باتوں پر دہ پہلے غائب کے طور پر ایمان لاتا تھا وہ ان کا عارف ہو جاتا ہے اور وہ امور جو ابھی تک مخفی تھے اس کے سامنے آجاتے ہیں اور حالت شہود میں انہیں دیکھتا ہے۔وہ خدا تعالیٰ کو اسی عالم میں دیکھ لیتا ہے۔ اور اگر اس کو یہ مرتبہ عطا نہ ہوتا تو پھر یومنون بالغیب کے مصداق کو کوئی ہدایت اور انعام عطا نہ ہوتا۔ اس کیلئے قرآن شریف گویا موجب ہدایت نہ ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہتوا اور اس کیلئے ہدایت یہی ہے کہ اس کے ایمان کو حالت غیب سے منتقل کر کے حالت شہود میں لے آتا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے
من کان فی ھذہ اعمیٰ فھوفی الاخرۃ اعمیٰ (بنی اسرائیل : ۷۳)
یعنی جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ دوسرے عالم میں بھی اندھا اُٹھایا جاوے گا۔ اس نابینائی سے یہی مراد ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی تجلی اور ان امرو کو جو حالت غیب میں ہیں اسی عالم میں مشاہدہ نہ کرے اور یہ نابینائی کا کچھ حصہ غیب والے میں پایاجاتا ہے، لیکن ھدی للمتقین کے موافق جو شخص ہدایت پالیتا ہے اس کی وہ نابینائی دور ہو جاتی ہے اور وہ اس حالت سے ترقی کر جاتا ہے اور وہ ترقی اس کلام کے ذریعہ سے یہ ہے کہ ایمان بالغیب کے درجہ سے شہود کے درجہ پر پہنچ جاوے گا اور اس کے لیے یہی ہدایت ہے۔
اقامت صلوٰۃ سے اگلا درجہ
متقی کی دوسری صفت یہ ہے یقیمون الصلوٰۃ یعنی وہ نماز کو کھڑی کرتے ہیں۔ متقی سے جیسا ہو سکتا ہے تماز کھڑی کرتا ہے۔ یعنی کبھی اس کی نماز گر پڑتی ہے۔پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔یعنی متقی خد اتعالیٰ سے ڈراکرتا ہے اور وہ نمازکو قائم کرتا ہے۔ اس حالت میں مختلف قسم کے وساوس اور خطرات بھی ہوتے ہیں جو پیدا ہو کر اس کے حضور میں حارج ہوتے ہیں اور نماز کو گرادیتے ہیں۔لیکن یہ نفس کی اس کشاکش میں بھی نماز کو کھڑا کرتا ہے۔ کبھی نماز گرتی ہے مگر یہ پھر اسے کھڑا کرتا ہے۔ اور یہی حالت اس کی رہتی ہے کہ وہ تکلف اور کوشش سے باربار اپنی نماز کو کھڑا کرتا ہے یہانتک کہ اﷲ تعالیٰ اپنے اس کلام کے ذریعہ ہدایت عطا کرتا ہے۔اس کی