یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔اور علت صوری لا ریب فیہ ہے۔ یعنی اس کتاب کی خوبی اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ ہی نہیں۔ جو بات ہے مستحکم اور جو دعویٰ ہے وہ مدلل اور روشن۔اور علت غائی اس کتاب کی ھدی للمتقین ہے۔یعنی اس کتاب کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ متقیوں کو ہدایت کرتی ہے۔ متقی کی صفات یہ چاروں علتیں بیان کرنے کے بعد پھر اﷲ تعالیٰ نے متقیوں کی عام صفات بتائی ہیں کہ وہ متقی کون ہوتے ہیں جو ہدایت پاتے ہیں۔ الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنھم ینفقون۔ والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃ ھم یوقنون۔ یعنی وہ متقی ہوتے ہیں جو خدا پر ہنوز پردۂ غیب میں ہوتا ہے ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تجھ پر نازل کی ہے اور جو کچھ تجھ سے پہلے نازل ہوا۔اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔یہ صفات متقی کے بیان فرمائے۔ اب یہاں بالطبع ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کتاب کی غرض و غایت تو یہ بتائی۔ ھدی للمتقین۔ اور پھر متقیوں کے صفات بھی وہ بیان کئے جو سب کے سب ایک با خدا انسان میں ہوتے ہیں۔یعنی خدا تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔نماز پڑھتا ہو۔ صدقہ دیتا ہو۔کتاب اﷲ کو مانتا ہو۔ قیامت پر یقین رکھتا ہو۔ پھر جو شخص پہلے ہی سے ان صفات سے متصف ہے اور وہ متقی کہلاتا ہے اور ان امور کا پابند ہے تو پھر وہ ہدایت کیا ہوئی جو اس کتاب کے ذریعہ اس نے حاصل کی ہے؟اس میں وہ امر زائد کیا ہے جس کے لیے یہ کتاب نازل ہوئی ہے؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور امر ہے جو اس ہدایت میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ امور جو بطور صفات متقین بیان فرمائے ہیں یہ تو اس ہدایت کے لیے جو اس کتاب کا اصل مقصد اور غرض ہے بطور شرائط ہیں؛ ورنہ وہ ہدایت اور چیز ہے اور وہ ایک اعلیٰ امر ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا ے اور جس کو میں بیان کرتا ہوں۔ ایمان بالغیب سے اگلا درجہ پس یاد رکھو کہ متقی کی صفات میں سے پہلی صفت یہ بیان کی یومنون بالغیب یعنی غیب پر ایمان لاتے ہیں۔یہ مومن ایک ابتدائی حالت کا اظہار ہے۔ کہ جن چیزوں کو اس نے نہیں دیکھا ان کو مان لیا ہے۔ غیب اﷲ تعالیٰ کا نام ہے۔ اور اس غیب میں بہشت،