یہاں حضرت اقدس نے سورہ بقرہ کے پہیل رکوع کے کچھ حصہ کی تفسیر بیان فرمائی جس کو میں درج کرتا ہوں، لین سہولت اور اس تفسیر کی ترتیبِ اَبلغ کے لحاظ سے پہلے وہ حصہ یکجائی طور پر درج کرتا ہوں اور پھر اس کا ترجمہ دیتا ہوں :
زاں بعد تفسیر (ایڈیٹر الحکم)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
الٓمٓ۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین۔ الذین یومنون بالغیب
ویقیمون الصلوٰۃ ومما رزقنٰھم ینفقون ۔والذین یو منون بما انزل الیک
وما انزل من قبلک وبالاٰخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم
واولائک ھم المفلحون۔ (البقرۃ : ۱ تا ۲)
ترجمہ:۔ میں اﷲ جو بہت جاننے والا ہوں۔ یہ کتاب جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں
ہے۔متقیوں کے لیے ہدایت نامہ ہے (متقی کون ہوتے ہیں) جو غیب پر ایمان لاتے
ہیں اور نماز کو کھڑی کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے
ہیں۔اور متقی وہ لوگ ہوتے ہیں۔ جو اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی
ہے اور اس وحی پر بھی جو تجھ سے پہلے نازل ہوئی۔ اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے رب سے ہدایت یافتہ ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔
تفسیر
الٓمٓ۔ ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین۔
میں اﷲجو بہت جاننے والا ہوں۔ یہ کتاب جو شک وشبہ اور ہر عیب ونقص سے پاک ہے متقیوں کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔
قرآن کریم کی علل اربعہ
ہر شے کی چار علتیں ہوتی ہیں۔ یہاں بھی ان علل اربعہ کو بیان کیا ہے۔ اور وہ علل اربعہ یہ ہوتی ہیں۔علتؔ فاعلی۔ علت صوری، علت مادی، علت غائی۔ اس مقام پر قرآن شریف کی چار علتوں کا ذکر کیا۔
علت فاعلی تو اس کتاب کی الٓمٓ ہے۔ اور الٓمٓ کے معنے میرے نزدیک انا اﷲ اعلم یعنی میں اﷲ وہ ہوں جو سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں۔ اور علت مادی ذٰلک الکتاب ہے۔