قابل ہوں اور اس کی فطرت یں نشونما کا مادہ ہو لیکن وہ نشونما نہیں پاسکتا اور فطرت بار آور نہیں ہوسکتی جبتک آسمان سے مینہ نہ برسے ؎ باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ ردیدد در شورہ بوم و خس اس غض کے لیے کہ عمدہ عمدہ پھل اور پھول پیدا ہوں،عمدہ زمین اور اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے جبتک یہ بات نہ ہو کچھ نہیں ہو سکتا۔اب اس نظارۂ فطرت کو اﷲ تعالیٰ ضرورت وحی کے لیے پیش کرتا ہے اور توجہ دلاتا ہے کہ دیکھو جب مینہ نہ برسے تو قحط کا اندیشہ ہوتا ہے یہانتک کہ زمینی پانی جو کنوئوں اور چشموں میں ہوتا ہے، وہ بھی کم ہونے لگتا ہے۔ پھر جبکہ دنیوی اور جسمانی ضرورتوں کے لیے آسمانی پائی کی ضرورت ہے تو کیا روحانی اور ابدی ضرورتوں کے لیے روحانی بارش کی ضرورت نہین؟ اور وہ وحیٔ الٰہی ہے۔ جیسے مینہ کے نہ برسنے سے قحط پڑتا اور کنوئیں اور چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پر اگر انبیاء و رسل دنیا میں نہ آئیں تو فلسفیوں کا وجود بھی نہ ہو کیونکہ قویٰ عقیلہ کا نشونما وحیٔ الٰہی ہی سے ہوتا ہے اور زمینی عقلیں اسی سے پرورش پاتی ہیں۔ پس اس آیت والسماء ذات الرجع۔ والارض ذات الصدع (الطارق : ۱۲،۱۳) میں وحی الٰہی کی ضرورت پر عقلی اور فطرتی دلائل پیش کئے ہیں۔جو شخص اس مار کو سمجھ لے گا وہ بول اُٹھے گا کہ بیشک وحیٔ الٰہی کی ضرورت ہے۔اور یہ وہ طریق ہے جو آدم سے چلا آتا ہے اور ہر شخص نے اپنی استعداد اور فطرت کے موافق اس سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ ہاں جو جاہل اور ناقص تھے یا جن میں تکبر اور خودسری تھی وہ محروم رہ گئے اور انہوں نے کچھ بھی حصہ نہ لیا۔یہی اصل اور سچی بات ہے اور تم یقینا یاد رکھو کہ آسمانی بارش کی سخت ضرورت ہے۔اس لیے کہ عملی قوت بجز اس بارش کے پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ تقویٰ کا مدار علم پر ہے غرض اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔تقویٰ بھی تب ہی پورا ہوتاہے، جب علم الٰہی اس کے ساتھ ہو۔اور وہ وہ علم ہے جو کتاب اﷲ میں مندرج ہے : یہ سچی بات ہے کہ کوئی شخص مراتب ترقیات حاصل نہیں کر سکت اجب تک تقویٰ کی باریک راہوں کی پروا نہ کرے اور تقویٰ کا مدار علم پر ہے۔یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید کے شروع ہی میں بیان فرمایا ہے: