مبلغین کے لیے دنیوی علوم کی ضرورت ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جس قوم سے تمہیں مقابلہ پیش آوے اس مقابلہ میں تم بھی ویسے ہی ہتھیار استعمال کرو جیسے ہتھیار وہ مقابلہ والی قوم استعمال کرتی ہے۔ اور چونکہ آجکل مذہبی مناظرہ کرنے والے لوگ ایسے امور پیش کر دیتے ہیں جن کا سائنس اور موجودہ علوم سے تعلق ہے اس لیے اس حدتک ان علوم میں واقفیت اور دخل کی ضرورت ہے جیسے مثلا ً اعتراض کر دیتے ہیں کہ جن ممالک میں چھ ماہ تک آفتاب طلوع یا غروب نہیں ہوتا۔ وہاں نماز یا روزہ کے احکام کی تعمیل کس طرح پر ہوگی؟ اب جو شخص ان ممالک سے واقف نہیں یا ان باتوں پر اطلاع نہیں رکھتا وہ سنتے ہی گھبرا جاویگا اور حیران ہو کر رہ جاویگا۔ ایسا اعتراض کرنے والوں کا منشا یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کی تکمیل کو ناقص قرار دیں کہ ایسے ممالک کے لیے کوئی اور حکم ہونا چاہیے تھا۔ غرض ایسے اعتراضات چونکہ آجکل ہوتے ہیں، اس لیے ضروری امر ہے کہ ان علوم میں کچھ نہ کچھ دسترس ضرور ہو۔ ایسا ہی بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن شریف گردشِ آسمان کا قائل ہے جیسے فرمایا والسماء ذات الرجع (الطارق : ۱۲) حالانکہ آجکل کے بچے بھی جانتے ہیں کہ زمین گردش کرتی ہے۔ غرض اسی قسم کے بیسیوں اعتراض کر دیتے ہیں اور تادقیتکہ ان علوم میں کچھ مہارت اور واقفیت نہ ہو جواب دینے میں مشکل پیدا ہوتی ہے۔یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ زمین یا آسمان کی گردش ظنی امور ہیں ان کو یقینیات میں داخل نہیں کر سکتے۔ ایک زمانہ تک گردشِ آسمان کے قائل رہے۔پھر زمین کی گردش کے قائل ہو گئے۔ سب سے زیادہ ان لوگوں کی طبابت پر مشق ہے لیکن اس میں بھی دیکھ لو کہ آئے دن تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً پہلے ذیابیطس کے لیے یہ کہتے تھے کہ اس کے مریض کو میٹھی چیز نہیں کھانی چاہیے مگر اب جو تحقیقات ہوئی ہے تو کہتے ہیں کچھ ہرج نہیں اگر سنگترہ بھی کھا لے یاچاء پی لے۔ غرض یہ سب علوم ظنی ہیں۔اس موقعہ پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ والسماء ذات الرجع کے معنے بتادیئے جاویں۔ کیونکہ اس کا ذکر آگیا ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ سماء کے معنے آسمان ہی کہ نہیں ہیں بلکہ سماء مینہ کو بھی کہتے ہیں۔گویا اس آیت میں اس مینہ کی جو زمین کی طرف رجوع کرتا ہے قسم کھائی ہے اور پھر وہ زمین جس سے شگوفے نکلتے ہیں۔اکیلی زمین اور اکیلا آسمان کچھ نہیں کرسکتا۔ وحیٔ الٰہی کی ضرورت پر ایک عقلی دلیل اس آیت کو اﷲ تعالیٰ ضرورت وحی پر بطور مثال پیش کرتا ہے کہ ہر چنر زمین میں جو جوہر