انسانوں کے تین درجات اس لیے بھی کہ ہر شخص ایسی طبیعت اور مذاق کا نہیں ہوتا۔خود اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی تقسیم تین طرح پر کی ہے۔ منہم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات (فاطر : ۳۳) یعنی تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو ظالم لنفہ کہلاتے ہیں ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ خواہش نفس ان پر غالب ہوتی ہے اور وہ گویا پنجۂ نفس میں گرفتار ہوتے ہی۔ دوم وہ لوگ ہیں جو مقتصد یعنی میانہ رو کہلاتے ہیں۔ یعنی کبھی نفس ان پر غالب ہو جاتا ہے اور کبھی وہ نفس پر غالب ہو جاتے ہیں اور پہلی حالت سے نکل چکے ہوتے ہیں، لیکن تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو پنجۂ نفس سے کلی رہائی پالیتے ہیں اور سابق بالخیرات کہلاتے ہیں۔ یعنی نیکی کرنے میں سب سے سبقت لے جاتے ہیں۔اور وہ محض خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں ۔ان میں علمی اور عملی قوت آجاتی ہے۔ایسے لوگ خدمت دین کے لیے مفید اور کار آمد ہوتے ہیں۔ اس قانون کو مد نظر رکھ کر اﷲ تعالیٰ نے بعض کا حکم دیا۔ کیونکہ کل کے کل تو اس مقصد کے لیے تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ اور یہی اﷲ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوین چاہئیں جو تجارت، زراعت یا ملازمت کریں اور ایسے بھی ہونے چاہئیں جو دین کی تبلیغ کرنے والے ہوں تاکہ قوم آئندہ ٹھوکروں سے بچ جاوے۔ یہ یاد رکھو کہ جب کوئی قوم تباہ ہونے کو آتی ہے تو پہیل اس میں جہالت پیدا ہوتی ہے اور وہ دین جو انہیں سکھایا گیا تھا اُسے بھول جاتے ہیں۔جب جہالت پیدا ہوتی ہے تو اس کے بعد یہ مصیبت اور بلا آتی ہے کہ اس قوم میں تقویٰ نہیں رہتا اور اس مین فسق و فجور اور ہر قسم کی بدکرداری شروع ہو جاتیہے اور آخر اﷲ تعالیٰ کا غضب اس قوم کو ہلاک کر دیتا ہے کیونکہ تقویؓ اور خداترسی علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جیس اکہ خود اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ انما یخشی اﷲ من عبادہ العلماء (فاطر : ۲۹) یعنی اﷲ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالم ہیں۔اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت علم خشیت اﷲ کو پیدا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جو شخص پورے طور رپ عالم ہوگا اس میں ضرور خشیتہ اﷲ پیدا ہوگی۔ علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے۔ اس سے فلسفہ، سائنس یا ارو علوم مروجہ مراد نہیں کیونکہ اُن کے حصول کے لیے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر اُن کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی،لین علم القرآن بجز متقی اور دیندار کے کسی دوسر یکو دیا ہی نہیں جاتا ۔پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویؓ اور خشیت پیدا ہوتی ہے۔