وجہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ قوتِ ایمانی پیدا نہیں ہوئی جو ہونی چاہیے۔ ابھی تک جو تعریف کی جاتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی ستاری کرارہی ہے۔ لیکن جب کوئی ابتلاء اور آزمائش آتی ہے تو وہ انسان کو ننگا کر کے دکھا دیتی ہے۔ اس وقت وہ مرض جو دل میں ہوتی ہے اپنا پورااثر کر کے انسان کو ہالک کر دیتی ہے۔ فی قلوبہم مرض فزاد ھم اﷲ مرضا (البقرۃ : ۱۱) یہ مرض ابتلاء ہی کے وقت بڑھتی اور اپنا پورا زور دکھاتی ہے خدا تعالیٰ کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ دلوں کی مخفی قوتوں کو ظاہر کر دیتا ہے اور جو دل میں خبث اور شرارت رکھتا ہے اس کو بھی کھول کر دکھا دیتا ہے اور کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ ایک صادق جماعت ملنے کا وعدہ یقینا سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکین عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں۔ پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو نہ پہلے امر کی طرف ۔اگر میں جماعت کی موجودہ حالت پر ہی نظر کروں تو مجھے بہت غم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی کمزور حالت ہے اور بہت سے مراحل باقی ہیں جو اس نے طے کرنے ہیں،لیکن جب اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں جو اس نے مجھ سے کئے ہیں تو میرا غم امید سے بدل جاتا ہے۔منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے، جو فرمایا : وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفرو االیٰ یوم القیامۃ (اٰ ل عمران : ۵۶) یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا۔لین غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا۔ جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا۔ ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے،اس وقت تک اتباع کا لفظ صادق نہیں آتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میر اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو۔ اس سے مجھے تسلی ملتی اور اور میرا غم امید سے بدل جاتا ہے۔مجھے اس بات کا غم نہیں کہ ایسی جماعت نہ ہوگی۔ نہیں جماعت تو ضرور ہوگی اس لیے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ ایسے لوگ ضرور ہوں گے۔مگر غم اس